- فتوی نمبر: 3-349
- تاریخ: 05 دسمبر 2010
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
یہ کہ میری والدہ کینسر کی مریضہ تھی اور ڈاکٹروں نے ان کو لا علاج قرار دے دیا تھا۔ جس وجہ سے میری والدہ کو خاندان والوں نےکہا آپ کے جانےکے بعد گھر اور بچوں کا کیا ہوگا۔ جس وجہ سے میری والدہ نے میرے ماموں کی بیٹی *****سے میرا نکاح کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان دنوں میری والدہ ****تھی اور میں لاہور میں تھا، مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اس وقت میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔
2007۔10۔28 کو میری عمر 14 سال 6 ماہ تھی، جب نکاح کیا گیا کہ آج تیرا نکاح ہے یہ بات سن کر میں بہت پریشان ہوا اور میں اس بات پر قلبی طور پر راضی نہ تھا، مسلسل انکار پر میری والدہ اور رشتہ داروں نے اپنی زندگی کا واستہ دیا اور قسم دی اور نکاح کردیا۔ جس لڑکی سے میرا نکاح ہونا تھا اس کو میں آپ کہتا تھا اور وہ عمرمیں میرے سے بڑی تھی۔ میں نے اس نکاح کو قلبی طور پر قبول نہیں کیا تھا۔ میں نکاح کے بارےمیں کچھ نہ جانتا تھا۔ یہ کہ نکاح کے بعدایک دن کےلیے بھی ہماری خلوت میں ملاقات نہیں ہوئی۔ اب میری عمر 17 سال ہے، قانونی طور پر 18 سال سے کم نکاح نامہ درج نہیں ہو سکتا اس بارے میں رہنمائی فرمائی جاوے اس نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ایسی صورت میں نکاح مؤثر ہو جاتا ہے؟
نوٹ: اس نکاح میں میرے ماموں ، چچا اور والدصاحب بھی شریک تھے۔ نکاح کے وقت ہاں میں نے خود کی تھی۔ اب میں رکھنا نہیں چاہتا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
چونکہ والد نکاح کے وقت موجود تھے اور اس نکاح سے راضی تھے اس نئے نکاح نافذ ہوگیا۔ اگر سائل لڑکی کو اپنے نکاح میں رکھنا نہیں چاہتا تو وہ طلاق دے سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے والد کو اور دیگر رشتہ داروں کو ہمنوا بنالے۔
أما شروطه فمنها العقل والبلوغ والحرية في العاقد إلا أن الأول شرط الانعقاد فلا ينعقد نكاح المجنون والصبي الذي لا يعقل. و الأخيران شرطا النفاذ فإن نكاح الصبي العاقل يتوقف نفاذه على إجازة وليه. ( عالمگیری، 267/ 1 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved