- فتوی نمبر: 29-19
- تاریخ: 31 مارچ 2023
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
میں نے ایک رائفل 21000 میں خریدی تھی وہ رائفل مجھ سے میرے دوست نے تھوڑی دیر کے لیے مانگی پھر اس نے آگے اپنے دوست کو دیدی اور اس تیسرے بندے سے وہ رائفل چوری ہوگئی اب جس نے مجھ سے لی تھی وہ کہتا ہے کہ میں تمہیں نئی دلوا دیتا ہوں اور نئی کی قیمت 70000 سے 80000 تک ہے اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ رائفل جس دن چوری ہوئی تھی اس دن اس کی جو قیمت تھی ، آپ اپنے دوست سے اس قیمت کا مطالبہ کرسکتے ہیں ۔اگر وہ آپ کو اپنی خوشی سے نئی رائفل دیتا ہے تو اس سے نئی رائفل بھی لے سکتے ہیں۔
توجیہ: رائفل ایسی چیز ہے کہ جس میں ناتجربہ کار شخص کے استعمال کرنے کی وجہ سے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اس لیے عاریت پر لینے والے شخص کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ آگے کسی کو رائفل عاریت پر دے ،لہذا اس کاکسی کو عاریت پر دینا تعدی ہے اور چونکہ استعمال شدہ رائفل ذوات القیم میں سے ہے اس لیے تعدی کی وجہ سے وہ رائفل کی قیمت کا ضامن ہو گا۔
البنایہ شرح الہدایہ (9/182،181) میں ہے:
(قال): أي القدوري: (وله) أي للمعير (أن يعيره إذا كان مما لا يختلف باختلاف المستعمل) …….. وانما لا يجوز فيما يختلف باختلاف المستعمل دفعا لمزيد الضرر عن المعير.
الدر المختار(9/307) میں ہے:
(وتجب القيمة في القيمي يوم غصبه) إجماعا
البحرالرائق شرح کنز الدقائق(7/281) میں ہے:
أما لو كانت مطلقة كما لو استعار دابة للركوب أو ثوبا للبس له أن يعيرهما ويكون ذلك تعيينا للراكب واللابس فإن ركب هو بعد ذلك قال الإمام علي البزدوي يكون ضامنا وقال السرخسي وخواهر زاده لا يضمن كذا في فتاوى قاضي خان وصحح الأول في الكافي
حاشیہ کنز الدقائق (383) میں ہے:
إذا استعار دابة ليركبها فركبها وأركب غيره فعطبت ضمن نصف قيمتها معناه انهما ركبا معا لان سبب العطب ركوبهما معا واحدهما ماذون فيه فلهذا ضمن النصف حتى لو اركب غيره فقط ضمن الكل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved