- فتوی نمبر: 3-34
- تاریخ: 20 نومبر 2009
- عنوانات: عبادات
استفتاء
سوال: ایک آدمی نے اپنی ملکیتی دکانوں پر مسجد تعمیر کر کےاہل محلہ کو اس میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی۔ اور امام متعین کر کے اس کو مبلغ ایک ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیتا رہا۔ جبکہ مسجد کے دیگر تما م اخراجات بشمول بل ہائے بجلی وغیرہ اہل محلہ ہی ادا کرتےرہے۔ کیونکہ اس نے مسجد کو وقف فی سبیل اللہ کر دیا تھا۔ اور تقریباً پانچ سال قبل مسجد کے نیچے دونوں دکانوں میں سےایک کا کرایہ مسجد پر خرچ کرنے کا وعدہ کیا، لیکن تاحال اس نے دکانوں کے کرایہ میں سے مسجد پر کچھ بھی خرچ نہیں کیا۔
اب سے کوئی ایک ماہ قبل ذاتی انا کے پیش نظر امام مسجد کو بے دخل کر دیا ہے، امام صاحب پندرہ سال سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اہل محلہ نے اس کے اس رویہ کو ناپسند کیا۔ اور اس سے کہا کہ تمام مقتدی امام صاحب کو پسند کرتے ہیں اور ان کے کام سے مطمئن ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ یہ مسجد میری ہے اسے میں نے بنایا ہے اور میں جسے چاہوں امام رکھوں، تمہیں اس کےبارے میں بولنے کا کوئی حق نہیں ۔ جو امام اب میں نے مقرر کیا ہے اہل محلہ چاہیں تو اس کے پیچھےنماز پڑھیں یا نہ پڑھیں۔ اگر کسی نے زیادہ گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو مسجد کو تالا لگا دوں گا۔
مذکورہ صورت حال کے پیش نظر درج ذیل سوالات کے جوابات کتاب و سنت کی روشنی میں ارشاد فرمائیں:
1۔ کیا یہ جگہ مسجد کا حکم رکھتی ہے اوریہاں نماز جمعہ ادا ہوسکتی ہے یا نہیں؟
2۔ اس جگہ پر رمضان المبارک میں اعتکاف بیٹھنے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟
3۔ اس جگہ پر نماز پڑھنے والوں اور رقم خرچ کرنے والوں کو مسجد کا ثواب ملے گا یا نہیں؟
4۔ مسجد کو اپنی ملکیت ظاہر کرنے والے کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ یہ شرعی مسجد نہیں ہے، شرعی مسجد کے لیے ضروری ہے کہ اوپر نیچے تمام جگہ وقف ہو ملکیتی نہ ہو، البتہ نماز جمعہ اس جگہ ہو سکتی ہے۔
2۔ اس میں اعتکاف نہیں بیٹھ سکتے۔
3۔ نہیں۔
4۔ وہ جگہ جب شرعی مسجد نہیں ہے تو اس شخص کی ملکیتی ہی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved