• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جب حضرت حسینؓ نے عاشوراء کےدن روزہ نہیں رکھا تو پھر مستحب کیسا ہے؟

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

اگر عاشورا کے دن روزہ ہوتاتو پھر حضرت حسین رضی الله تعالی عنہ پانی کس لیے مانگ رہے تھے؟ اور حضرت عباس علمدار کو دریاپہ پانی لینے کیوں بھیجاگیا؟اس وقت امام حسین رضی الله تعالی عنہ سے زیادہ کون ان کے نانا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شریعت سے واقف تھا؟ یقیناً امام حسین رضی الله تعالی عنہ اس وقت کے امام تھے۔

مہربانی فرما کرمذکورہ پوسٹ کا جواب بتا دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

صحیح روایات سے عاشورہ کا روزہ رکھنا ثابت ہے لیکن چونکہ یہ روزہ صرف مستحب ہے اور سفر یا جنگ کی حالت میں فرض روزہ چھوڑنے کی بھی گنجائش ہے، اس لیے اگر امام[1] حسین رضی الله تعالی عنہ نے عاشورہ کا روزہ نہ رکھا ہو تو اس میں اشکال کی کوئی بات نہیں۔

في الهندية1/460

الغازي اذا علم انه يقاتل العدو في رمضان وهو يخاف الضعف فله ان يفطر

[1] مفتی عبداللہ صاحب کا اشکال:

حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’جواب نفیس‘‘ میں(جوکہ ظفراللہ شفیق کی کتاب ’’واقعہ کربلااورامام حسینؓ اوراقرار مودت‘‘کےجواب میں لکھی تھی) کہیں پر بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ امام کا لفظ قصدا ذکر نہیں کیا تھا حالانکہ  اس عدم ذکر کو پروفیسر ظفراللہ شفیق صاحب نےبطوراعتراض کےذکربھی کیاتھا، لہذا حضرت لکھ دیا جائے۔

مفتی رفیق صاحب کا جواب:

موجودہ دور میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ لفظ "امام” کے لکھنے پر بھی بعض حضرات کو اعتراض ہے جیساکہ احسن الفتاوی میں اس کو تشیع کااثرکہا گیاہےاور نہ لکھنے پر بھی بعض حضرات کو اعتراض ہے جیساکہ ظفراللہ شفیق نے اعتراض کیااس لیے میرا خیال یہ ہے کہ نہ لکھنے کا التزام کیا جائے اور نہ ہی نہ لکھنے کا التزام کیا جائے بلکہ کبھی لکھ دیا تو پھر بھی ٹھیک اور نہ لکھا تو پھر بھی ٹھیک۔ چناچہ حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے حضرت مہدی کے ساتھ امام مہدی کا لفظ لکھا ہے حالانکہ مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں بھی یہی لکھا ہے کہ یہ تشیع کا اثر ہے۔

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved