- فتوی نمبر: 17-115
- تاریخ: 18 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(1) ایک شخص نے گھر میں اکیڈمی بنا رکھی ہے جس میں سکول کے بچے پڑھتے ہیں،ان کی ماہانہ فیس طے ہے لیکن اس ٹیچر نے ایک شرط لگا رکھی ہے جو کہ داخلہ کے وقت بتا دی جاتی ہے کہ اگر آپ ایک ماہ یا دو ماہ چھٹی کریں گے تو پھر بھی ہم آپ سے فیس لیں گے، فیس معاف نہیں ہوگی، اس لیے کہ بعد میں ان دو ماہ کا کام بھی تو ہم نے ہی کورکروانا ہے۔
(2) اسی طرح سکول کے منتظمین جو گرمیوں کی چھٹیوں میں دو یا تین ماہ کی فیس لیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟جبکہ بچے ان تین ماہ میں تعلیم حاصل کرنے نہیں جاتے.
(3) بعض رکشہ ڈرائیور ایسے ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ آپ کا ہمارے ساتھ ماہانہ معاملہ طے ہوا ہے اور ہم آپ کے پابند ہیں۔ اب آپ چاہے ایک چھٹی کریں یا ایک یا دو ماہ چھٹی کریں ہم آپ سے کرایہ بہر صورت وصول کریں گے۔ان مسائل کا تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللہ خیرا(عطاء المنان۔ملتان)
وضاحت مطلوب:
اکیڈمی میں اسکولوں کی طرح سالانہ چھٹیاں ہوتی ہیں یا نہیں؟ اگر ہوتی ہیں تو کیااکیڈمی والے ان سالانہ چھٹیوں کی بھی فیس لیتے ہیں یا نہیں؟
جواب وضاحت:سالانہ چھٹیاں ہوتی ہیں اور فیس بھی لیتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں اکیڈمی والوں سے اجارہ چونکہ سالانہ ہوتا ہے، اس لیے اگر طالب علم نے مہینے کے شروع میں اکیڈمی والے سے کہا بھی ہو کہ اس ماہ میں اکیڈمی نہیں آؤں گا تو بھی اس ماہ کی فیس کے اکیڈمی والے حق دار ہوں گے۔
2۔مذکورہ صورت میں سکول کے منتظمین کا گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس لینا درست ہے،کیونکہ سکول میں طلبا کے داخلے کا معاہدہ سالانہ ہوتا ہے نہ کہ ماہانہ اور چھٹیوں کے ایام پڑھائی کے ایام کے تابع ہوتے ہیں۔
3۔مذکورہ صورت میں رکشہ ڈرائیور نے چونکہ ماہانہ معاملہ طے کیا ہےلہذا اگر سواری نے مہینے کے شروع میں بتا دیا ہو کہ اس ماہ ہم آپ کے رکشہ میں سفر نہیں کریں گے تو اس ماہ کی فیس کا رکشہ ڈرائیور حقدار نہیں ہوگا،کیونکہ اس ماہ کا اجارہ ہی نہیں ہواا ور اگر مہینے کے شروع میں نہ بتایا تو رکشہ ڈرائیور ماہانہ کرایہ کا حقدار ہوگا مگر یہ کہ اس ماہانہ اجارہ کو پورا کرنے میں طالب علم کو ضرر ہو تو پھر رکشہ ڈرائیور ماہانہ کرایہ کا حقدار نہ ہوگا۔ اور اگر رکشہ ڈرائیور کے ساتھ بھی سالانہ معاہدہ ہو تو پھر اسکول اور اکیڈمی والوں کی طرح وہ بھی چھٹیوں کے کرائے کا حقدار ہو گا۔
في رد المحتار (9/ 136):
و الحاصل أن كل عذر لا يمكن معه استيفاء المعقود عليه إلا بضرر يلحقه في نفسه أو ماله يثبت له حق الفسخ.
و في الفقه الإسلامي (5/ 3830):
العذر هو ما يكون عارضاً يتضرر به العاقد مع بقاء العقد و لا يندفع بدون الفسخ.
وفي شرح المجلة (2/ 560):
لو فات الانتفاع بالمأجور بالكلية سقطت الأجرة … و إن انهدمت الدار كلها فله الفسخ من غير حضرت رب الدار لكن الإجارة لا تنفسخ … و في إجارات شمس الأئمة: إذا انهدمت الدار كلها الصحيح أنه لا ينفسخ لكن سقط الأجر عنه فسخ أو لم يفسخ.
و فيه أيضاً (2/ 608):
إن أراد المستأجر فسخ الإجارة قبل رفع العيب الحادث الذي أخل بالمنافع فله فسخها في حضور الآجر و إلا فليس له فسخها بغياب و إن فسخها بغيابه دون أن يخبره لم يعتبر فسخه و كراء المأجور يستمر كما كان، أما لو فات المنافع المقصودة بالكلية فله فسخها بغياب الآخر أيضاً و لا تلزمه الأجرة فسخ أو لم يفسخ … و أما لو انهدمت الدار بالكلية فمن دون احتياج إلى حضور الآخر للمستأجر فسخها و على هذه الحال لا تلزمه الأجرة.
وفي شرح المجلة (2/ 609):
إن العيب الحادث في المأجور كالموجود قبل العقد، لأن ما حدث من العيب يكون حدوثه قبل قبض ما بقي من المنافع المعقود عليها التي تحدث ساعة فساعة، فالفسخ في كل منهما أي البيع و الإجارة لا يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضى لكن لا بد أن يكون بحضرة المؤجر أو المشتري و علمهما.
و فيه أيضاً (2/ 584):
و لا تنس أن فسخ أحدهما في أي طريق كان لا بد أن يكون بحضور الآخر.
وفي شرح المجلة (2/ 560):
و …. ذلك أنه لو شرط تعجيل الأجرة على المستأجر دفعها قبل تسليم المأجور لكنها لا تتقرر عليه إلا بعد تسلیمه إياه، فتقرر عليه الأجرة شيئاً فشيئاً إلى أن يستوفي المنفعة و لو بالتمكن منها في جميع المدة المعقود عليها … و لو عجلها ثم بعد مضي نصف المدة المعقود عليها مثلاً انتقضت الإجارة رجع بحسابه ما بقي من المدة.
وفي شرح المجلة (2/ 608):
و إن فسخها بغيابه دون أن يخبره لم يعتبر فسخه و كراء المأجور يستمر كما كان.
و فيه أيضاً (2/ 561):
فإن كان غائباً ليس له أن يفسخ و لو خرج من الدار حال غيبة الآجر فعليه الأجر كما لو سكن، لأن العقد باق و هو متمكن من استيفاء المنفعة.
© Copyright 2024, All Rights Reserved