• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اکاؤنٹ میں پیسے ڈلوانے کی اجرت

استفتاء

میں ** کی ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں ہم سے بینک کافی دور ہے تقریباً 2 ریال کرایہ لگتا ہے اگر کوئی آدمی اکاؤنٹ میں پیسے ڈالنا چاہتا ہو  اور میں اس کو کہوں کہ 1 ریال مجھے دو میں یہ پیسے آپ کے اکاؤنٹ میں جمع کرونگا  تووہ کہتا ہے ٹھیک ہے۔  اس کے بعد میں کسی دوست کو کال کرتا ہوں کہ اس اکاونٹ میں اتنے پیسے جمع کردو تو وہ کردیتا ہے آیا اس صورت میں میرے لیے 1  ریال زیادہ لینا جائز ہے  یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت جائز نہیں ۔

توجیہ : مذکورہ صورت کی اصل یہ ہے کہ وہ بندہ دوسرے کے اکاؤنٹ میں پیسے ڈالنے کی ذمہ داری لیتا ہے اور اس  اس ذمہ داری کی ادائیگی کی ترتیب یہ ہے کہ آگے صرف فون کے ذریعے کام کرتا ہے  یعنی ایسا نہیں کہ خود جاکر جمع کروائے  یا اس کے لیے کچھ اور باقاعدہ کام کرے  جبکہ اس طرح صرف فون پر کام کرنا اور اس کی اجرت لینا عرفا قابل اجارہ  عمل شمار نہیں  ہوتا  اور اجارہ کے جائز ہونے کے لیے ایک  یہ بھی شرط ہے کہ  جس عمل پر اجارہ ہورہا ہوعرفا اس کو قابل اجارہ شمار کیا جاتا ہو۔

المبسوط  للسرخسی(16/42) میں ہے:

وكذلك الاستئجار على الحداء وكذلك الاستئجار لقراءة الشعر لان هذا ليس من اجارة الناس والمعتبر في الاجارة عرف الناس

شامی (9/157)

(استاجر شاة لارضاع ولده او جديه لم يجز) لعدم العرف

شامی (9/ 159) میں ہے:

«وفي البزازية والولوالجية: ‌رجل ‌ضل ‌له ‌شيء فقال: من دلني على كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر»

المحيط  البرہانی(7/ 485) میں ہے:

وفي «نوادر ابن سماعة» عن أبي يوسف: رجل ضل شيئا، فقال: ‌من ‌دلني ‌عليه ‌فله ‌درهم فدله إنسان فلا شيء له؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، ولو قال لإنسان بعينه: إن دللتني عليه فلك درهم، فإن دله من غير شيء معه فكذلك الجواب لا يستحق به الأجر وإن مشى معه ودله فله أجر مثله، لأن هذا عمل يقابل الأجر عرفا وعادة إلا أنه غير مقدر ففسد العقد ووجب به أجر المثل

عالمگیری(4/ 454) میں ہے:

من ‌ضل ‌له شيء فقال من دلني عليه فله كذا فدله واحد لا يستحق شيئا، وإن قال ذلك لواحد فدله هو بالكلام فكذلك، وإن مشى معه حتى أرشده فله أجر المثل

البحر الرائق  (5/ 166) ميں ہے:

قلت: في إجارات الولوالجية رجل ضاع له شيء فقال ‌من ‌دلني ‌عليه ‌فله ‌كذا فالإجارة باطلة لأن المستأجر له ليس معلوما والدلالة والإشارة ليستا بعمل يستحق به الأجر فلا يجب الأجر وإن قال ذلك على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه إن دللتني عليه فلك كذا إن مشى له ودله يجب أجر المثل في المشي لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل وإن دله بغير مشي فهو والاول سواء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved