- فتوی نمبر: 6-304
- تاریخ: 11 مئی 2014
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
2005ء میں میری شادی ہوئی، تقریباً ایک سال کا عرصہ میں نے اپنے سسرال میں گذارا، اس دوران میں مسلسل پریشان رہی، کیونکہ میرے سسرال والوں کی دین سے دوری، اخلاقی انحطاط اور بے حسی اور اسی طرح کے رویوں کے باعث میں ان کے ساتھ نہ رہ سکی اور والدین کے گھر آ گئی، بعد میں میرے والدین کی بار بار کوشش کے باوجود ان کے رویے میں تبدیلی آئی اور نہ انہوں نے میرے نان و نفقہ اور بچیوں کے اخراجات کی پروا کی، شادی کے بعد سے مسلسل جن مشکلات کا مجھے سامنا رہا ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
1۔ بات بات پر گالم گلوچ ان کا معمول ہے۔
2۔ اس دوران میرے ہاں دو بیٹیوں کی پیدائش ہوئی اور اس کے سارے اخراجات میرے والدین نے برداشت کیے، میری بڑی بیٹی معذور ہے اس کے علاج معالجے میں بہت زیادہ اخراجات ہوئے لیکن میرے شوہر نے کوئی مالی معاونت نہیں کی۔
3۔ والدین کے ہاں میرے مقیم رہنے کے دوران میرے شوہر نے دوسری شادی کر لی۔
4۔ میرے والد صاحب خلع کے کیس سے پانچ چھ ماہ قبل طلاق کے سلسلے میں وہاں گئے تو انہوں نے کہا کہ میری بچیاں مجھے دے دو اور طلاق لے لو۔ لہذا میرے والد کچھ عرصے کے بعد جب بچیوں کو لے کر گئے تو انہوں نے نہ بچیاں لیں اور نہ طلاق دی۔
اس عرصہ میں میرے والدین نے بار بار صلح کی کوشش کی اور مجھے ان کے ہاں بار بار بھیجا لیکن ان کے رویہ میں کبھی بھی تبدیلی نہ آئی اور وہ اس دوران مسلسل مجھ سے جھوٹ بولتے رہے، لہذا ان سب باتوں سے مایوس ہو کر میں ایک مرتبہ پھر اپنے والدین کے گھر آ گئی، والدین کے گھر رہتے ہوئے میں نے دو، تین سکولوں میں پرائیویٹ جاب بھی کی، لیکن مجھے اپنی بیٹی کی معذوری کی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع کرنا پڑا، میری بیٹی کی عمر تقریباً سات سال ہے اور چھوٹی کی عمر تقریباً چھ سال ہے۔ میرے شوہر نے گذشتہ سات سال سے میرا اور نہ ہی میرے بچوں کا نان و نفقہ ادا کیا۔
ان سب وجوہات کی بناء پر میں نے خلع کا دعویٰ دائر کیا تھا اس دوران بھی میرے شوہر نے انتہائی غیر ذمہ دارای کا ثبوت دیا اور عدالت میں حاضر نہ ہوئے، بالآخر فاضل عدالت نے مقدمہ میرے حق میں دے دیا۔ اس خلع کی شرعی حیثیت کے بارے میں آپ سے در خواست گذار ہوں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگرچہ عدالت نے خلع کی بنیاد پر نکاح فسخ کیا ہے، تاہم چونکہ فیصلے کی بنیاد صحیح ہے، یعنی شوہر کا تعنت (نان و نفقہ کی عدم ادائیگی) موجود ہے، اس لیے نکاح کو ختم سمجھا جائے گا۔ عدت گذارنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
و في المغني لابن قدامة: فإن امتنع المدعی عليه من الحضور أو تواری فظاهر كلام أحمد جواز القضاء عليه. (9/ 111)
و في المبدع: و إن نكل قضی عليه بالنكول نص عليه و اختاره عامة المشائخ. (10/64) انظر فتاوی عثمانية: ج 2. و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved