• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عدد طلاق میں اختلاف کی صورت

استفتاء

میں نے اپنی  بیوی کو طلاق  دی تھی جس کے الفاظ یہ تھے “میں طلاق دیتا ہوں” اس کے تین دن بعد رجوع ہو گیا اور ہمارا رجوع ایک اہل حدیث عالم (سلفی صاحب)نے کروایاتھا پھر اس کے  پندرہ سال بعددوبارہ ہمارے درمیان بحث مباحثہ ہوا اس پر بیوی نے کہا کہ کہ آپ مجھے فارغ کر دیں تو اس کے جواب میں میں نے کہا کہ “آپ فارغ ہو”یہ میں نے وقت کو ٹالنے کے لیے کہا تھا طلاق کی نیت نہیں تھی پھر بیوی نے کہا کہ آپ مجھے طلاق دے دیں تو میں نے کہا کہ میں نے  پہلے سے دی ہوئی ہے اگر آپ مزید طلاق لینا چاہتی ہیں تو عدالت جائیں ،اس کے علاوہ میں نے کبھی کوئی طلاق کے الفاظ نہیں بولے۔

بیوی کا بیان :

میرے شوہر نے پہلی مرتبہ مجھے لڑائی کے دوران تین طلاقیں دیں “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں “تین دفعہ کہا تھا ،اس وقت میری والدہ حیات تھیں تو میرے شوہر نے ان سے معافی وغیرہ  مانگی تو والدہ نے مجھے واپس بھیج دیا۔ اس کے بعد دوبارہ شوہر نے  مجھے تین طلاقیں دیں   اس کے بعد پھرہماری صلح ہو گئی اس کے کافی عرصے بعد  شوہر نے تیسرے موقع پر کہا کہ میں پہلے بھی تمہیں دو مرتبہ طلاق دے چکا ہوں اب دوبارہ تمہیں فارغ کرتا ہوں اور میرے بھائی کو کہا کہ آکر اسے لے جاؤ ۔میں اس  بیان پر حلف دینے کو تیار ہوں    ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کے حق میں ایک طلاق ہوئی ہے لیکن  بیوی کے بیان کے مطابق بیوی کے حق میں  تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش نہیں۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں شوہر کے حق میں ایک طلاق ان  کے ان الفاظ سے کوئی کہ “میں طلاق دیتا ہوں ” اس کے علاوہ شوہر نے جو یہ الفاظ کہے کہ  “آپ فارغ ہو”یہ الفاظ شوہر نے اگرچہ  بیوی کے مطالبے پر اور غصے میں کہے ہیں اور  ان سے بیوی کے حق میں  طلاق واقع ہو جاتی ہے لیکن شوہر کے حق میں نیت کے بغیر کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی اور چونکہ شوہر کے بقول اس نے یہ الفاظ محض ڈرانے کے لیے کہے تھے  اس لیے شوہر کے حق میں دوسری طلاق واقع نہیں ہوئی ،لیکن بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں کیونکہ طلا ق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر بیوی شوہر کا طلاق دینا خود سن لے تو اس کے لیے اس  پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے،مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی کو یقین  ہے کہ شوہر نے تین مرتبہ  “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں “یہ جملہ کہا تھا اور یہ الفاظ طلاق  کے بارے میں صریح ہیں،لہذا”الصریح  یلحق الصریح” کے تحت بیوی کے حق  میں  تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں   اس لیے  بیوی کے  لیے اب رجوع یا صلح کی گنجائش نہیں  ہے۔

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

وأما ‌الطلقات ‌الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

‌فالحكم ‌الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد.

ردالمحتار(4/449)میں ہے:

والمرأة كالقاضي ‌إذا ‌سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

درالمحتار(5/80)میں ہے:

(الصريح يلحق الصريح و)يلحق (البائن) بشرط العدة.

ردالمحتار مع الدر المختار (3/ 296)میں ہے:

(كناية ) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

قال شامى:(قوله قضاء) قيد به لأنه ‌لا ‌يقع ديانة ‌بدون ‌النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط.

فتاوی عالمگیری(1/470)میں ہے:

‌وإذا ‌طلق ‌الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع(3/283)میں ہے:

أما الطلاق الرجعي ‌فالحكم ‌الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

فتاوی محمودیہ(13/298)میں ہے:

سوال:زید نے کہا تین مرتبہ”میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں “زوجہ کا باپ لڑکی کو اپنے ہمراہ لے گیا ،زید طلاق سے منکر ہےاورکہتا ہے کہ میں نے صرف یہ کہا تھا کہاگر تم لے گئے تو  میں طلاق دے دوں گا۔۔۔۔زوجہ الفاظ مذکور سابقہ کا خود سننا ظاہر کرتی ہےصورت مذکور میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟اور نکاح جدید کس طرح ممکن ہے؟

جواب:جب عورت نے 3مرتبہ طلاق دینا خود سنا ہےتو پھر اس کے لیے زید کواپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں جو جائز صورت بھی عورت کے قبضہ میں ہو زید سے بچنے کی اختیار کی جاوے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved