• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ادھیارے کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک آدمی نے اپنی ساس کے ساتھ مل کر بھینسوں کا شراکت کا کاروبار کیا ہے۔ اب داماد نے اپنی جگہ بھی دی ہے، اورایک آدمی کام کے لیےبھی رکھا ہے اور ساتھ تمام خرچہ بھی داماد ہی کرتا ہے۔ اب آپ سے درخواست ہے کہ وضاحت کردیں کہ وہ کس طرح شراکت کریں؟

وہ داماد اس وقت ساس کے گھر 5کلو اور سالی کے گھر 2 کلو دودھ دے رہا ہے لیکن ساس کا کہنا ہے کہ داماد درست نہیں کر رہا، ان کو تھوڑا حصہ دے رہا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: دودھ کے بارے میں پہلے سے کچھ طےہوا تھا یا نہیں؟

جواب وضاحت: دونوں گھروں میں دودھ دیا جائے گا یہ طے ہوا تھا۔

وضاحت مطلوب ہے: معاملے کو تفصیل سے بیان کریں کہ شراکت کس طرح کی ؟کس کا کتنا سرمایہ تھا اور آپس میں کیا طے کیا تھا وغیرہ وغیرہ؟

جواب وضاحت: میری امی نے میرے خاوند کو بھینسیں لے کر دی ہیں اور میرے خاوند کا کوئی سرمایہ شامل نہیں، البتہ محنت اور سارا خرچہ میرے خاوند کا ہوگا۔

ساس نے تین بھینسیں اور ایک گائے لے کر دی تھیں، شراکت کے کاروبار کے لیے اور نفع نقصان کے بارے میں کوئی بھی بات طے نہیں ہوئی تھی ،البتہ یہ طے ہوا تھا کہ جو بچے پیدا ہوں گے جب وہ بیچیں گے توان میں آدھا آدھا حصہ ہوگا۔اوردودھ دونوں گھروں میں دیا جائے گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شرکت کی مذکورہ صورت حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں،البتہ حنابلہ کی ایک روایت کے مطابق جائز ہے چونکہ آج کل اس طرح کی صورتوں کاعرف ورواج ہے اس لیے حنابلہ کی اس روایت کو لینے کی گنجائش ہے،لہذا مذکورہ صورت میں بچے یا ان کی قیمت دونوں کے درمیان آدھے آدھے تقسیم ہوں گے اور اسی طرح دودھ بھی دونوں کے درمیان برابرتقسیم ہوگا۔

الشرح الکبیر لابن قدامہ (6/19)

ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها وصوفها وشعرها ونسلها أو نصفه أو جميعه لم يجز نص عليه أحمد في رواية سعيد بن محمد النسائي لان الاجر غير معلوم ولا يصلح عوضا في البيع، قال اسمعيل بن سعيد سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلى الرجل على أن يعلفها ويحفظها وولدها بينهما فقال اكره ذلك وبه قال ابو ايوب وأبو خيثمة ولا أعلم فيه مخالفا لان العوض معدوم مجهول لا يدرى ايو جدام لا، والاصل عدمه ولا يصلح أن يكون ثمنا، فان قيل فقد جوزتم دفع الدابة إلى من يعمل عليها بنصف مغلها قلنا انما جاز ثم تشبيها بالمضاربة [لعل الصواب المزارعة كما في مطالب أولي النهي: 3/594، و المغني: 5/8. ناقل] ولانها عين تنمي بالعمل فجاز اشتراط جزء من النماء كالمضاربة والمساقاة [لعل الصواب المزارعة بدل كما في مطالب أولي النهي: 3/594، و المغني: 5/8. ناقل] وفي مسئلتنا لا يمكن ذلك لان النماء الحاصل في الغنم لا يقف حصوله على عمله فيها فلم يمكن الحاقه بذلك.

وذكر صاحب المحرر(1) رواية أخرى انه يجوز بناء على ما إذا دفع دابته أو عبده يجزء من كسبه والاول ظاهر المذهب لما ذكرنا من الفرق، وعلى قياس ذلك إذا دفع نحله إلى من يقوم عليه بجزء من عسله وشمعه يخرج على الروايتين فان اكتراه على رعيها مدة معلومة بجزء معلوم منها صح لان العمل والمدة والاجر معلوم فصح كما لو جعل الاجر دراهم ويكون النماء الحاصل بينهما بحكم الملك لانه ملك الجزء المجعول له منها في الحال فكان له نماؤه كما لو اشتراه.

 (1) هو مجد الدين أبو البركات عبد السلام بن عبد الله بن أبي القاسم بن محمد بن تيمية [غير ابن تيمية المعروف] قال الذهبي الحافظ: كان الشيخ مجد الدين معدوم النظير في زمانه، رأساً في الفقه وأصوله، بارعاً في الحديث ومعانيه، له اليد الطولى في معرفة القرآن والتفسير، وصنف التصانيف، واشتهر اسمه، وبَعُدَ صيته. وكان فرد زمانه في معرفة المذهب، مفرط الذكاء، متين الديانة، كبير الشأن(طبقات الحنابة:1/284)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved