- تاریخ: 06 جون 2024
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے کسی خدمت کرنے والے کو ایک جانور دیا کہ آپ اس کی خدمت کرو، چارہ ڈالو، جب یہ جانور بچہ دے گا، تو اس جانور کے اور اس کے بچے کے آدھے کے مالک آپ ہوں گے، اور آدھے کا میں مالک ہوں گا۔ اور مالک خدمت کرنے والے کو یہ بھی کہتا ہے کہ جب آپ کہیں گے ہمارا معاملہ ختم ہو جائے گا۔ اور وہ مالک خدمت پر لینے والے سے آدھے جانور کی قیمت لے لے گا، اور جانور اسے دے دے گا، اور جو جانور آدھا خدمت کرنے والے کو دیا
جاتا ہے وہ اس کے گھاس وغیرہ اور خدمت کرنے کی وجہ سے دیا ہے۔ کیا یہ صورت جائز ہے یا ناجائز؟ رہنمائی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جانور کو ادھیارے پر دینے کی مذکورہ صورت جائز ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ اس کی کوئی معلوم مدت بھی مقرر کر لی جائے۔ مذکورہ صورت کے جائز ہونے کی وجہ اور تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں خدمت کرنے والے کی طرف سے دو چیزیں ہیں:
1۔ خدمت کا عمل: یعنی جانور کی دیکھ بھال کرنا، اسے کھولنا، باندھنا، چارہ ڈالنا، پانی پلانا وغیرہ ۔
2۔ جانور کا چارہ: خواہ خود کاشت کر کے کھلائے یا خرید کر کھلائے۔
اور چارہ کے مالک کی طرف سے خدمتگار کی ان دونوں چیزوں کے بدل اور عوض میں اس جانور کا نصف حصہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے بھی نصف نصف ہوں گے۔
جانور کے نصف حصہ کو خدمتگار کے عمل کی اجرت بنانا اور چارے کی قیمت قرار دینا جائز ہے۔
البتہ اس صورت کے جواز پر مندرجہ ذیل اشکالات ہو سکتے ہیں:
1۔ پہلا اشکال یہ ہے کہ یہ صورت بیع اور اجارہ کو جمع کرنے کی ہے جو قیاس کی رو سے جائز نہیں۔ کیونکہ اس میں ایک خرابی تو صفقۃ فی صفقۃ کی ہے۔ اور دوسری خرابی یہ ہے کہ اس صورت میں ایک ہی چیز (یعنی جانور کے نصف حصے) کو عمل کی اجرت اور چارے کی قیمت قرار دیا گیا ہے، جس سے اجرت اور چارے کی قیمت میں جہالت آتی ہے۔ چنانچہ العقود الدریہ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ میں ہے:
وإذا سمى له نصف الدابة مثلاً في مقابلة تربيتها وعلفها يكون المسمى معلوماً وقد يقال إن المسمى مجهول، لأنه قد جعل نصف الدابة أجرة للتربية وثمناً للعلف ولا يدرى مقدار العلف فيلزم جهل ما يقابله من الدابة وجهل ما يقابل أجرة التربية، وحيث جهل المسمى يجب الأجر بالغاً ما بلغ لأن هذا بيع في ضمن الإجارة وقد جهل البدل فيهما فيجب أجر المثل بالغاً ما بلغ. (2/ 129)
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ بیع اور اجارے کو جمع کرنے کی اور اسی طرح اجرت اور قیمت میں جہالت کی وہ صورتیں ناجائز ہیں جن کا عرف ورواج نہ ہو۔ بیع اور اجارے کو جمع کرنے کی اور اسی طرح اجرت اور قیمت میں جہالت کی جن صورتوں کا عرف ورواج ہو وہ صورتیں ناجائز نہیں۔ چنانچہ مذکورہ بالا عبارت کے بعد ’’العقود الدریہ ‘‘ ہی میں ہے:
(2/129، مكتبة رشيدية، كوئته):
لکن في الخلاصة في الفصل الخامس من الاجارات ما نصه: وفي فتاوى الفضل: لو دفع إلى نداف قباء ليندف عليه كذا من قطن نفسه بكذا من الدراهم، ولم يبين الأجر من الثمن جاز اه. وذكر قبله: وفي الأصل: رجل دفع إلى السكاف جلداً ليخرز له خفين على أن ينعلهما بنعل من عنده ويبطنه، ووصف له ذلك جاز وإن كان هذا بيعاً في إجارة لتعامل اه. قال في المحيط وهذا استحسان، والقياس أن لا يجوز … ومفاد هذا أن المدار على التعارف، فلو جرى التعارف جاز، وإلا فلا، كما يشهد بذلك التعليل.
2۔ دوسرا اشکال یہ ہے کہ یہ صورت شریک کو اجیر رکھنے کی ہے۔ اور شریک کو اجیر رکھنے کی صورت میں مستاجر پر اجیر کی اجرت ہی نہیں آتی۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے۔
الهداية (3/308، مكتبه رحمانية لاهور):
استأجره ليحمل نصف طعامه بالنصف الآخر حيث لا يجب الأجر، لأن ما من جزء يحمله إلا هو عامل لنفسه، فلا يتحقق تسليم المعقود عليه.
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ہماری ذکر کردہ صورت، شریک کو اجیر رکھنے کی صورت نہیں بنتی۔ کیونکہ شریک کو اجیر رکھنے کی صورت تب بنتی جبکہ نصف جانور کو باقی نصف کے بدلے میں اجارے پر دیاجاتا۔ جبکہ مذکورہ صورت میں کل جانور کو اجرت پر دیا جاتا ہے اور اجرت میں اسی جانور کا ایک مشاع حصہ اجرت کے طور پر طے کیا جاتا ہے۔ یہ صورت ’’قفیز طحان‘‘ کی صورت میں تو آتی ہے۔ شریک کو اجیر رکھنے کی صورت میں نہیں آتی۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:
ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلا لصيرورته شريكا. قال الشامي تحت قوله: (نصف هذا الطعام) قيد بالنصف، لانه لو استأجره ليمل الكل بنصفه لا يكون شريكا فيجب أجر المثل وهي مسألة المتن. (9/ 97)
3۔ تیسرا اشکال یہ ہے کہ اس صورت میں معقود علیہ کے جزء کو اجرت بنایا گیا ہے، جو قفیز طحان کے معنیٰ میں ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ذکر کردہ صورت بعینہ قفیز طحان کی نہیں ہے۔ بلکہ اس پر قیاس کی گئی ہے۔ اور عرف وتعامل کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ سکتے ہیں۔
وفي تبيين الحقائق (باب الإجارة الفاسدة: 5/130، مكتبه إمداديه ملتان):
ومشايخ بلخ والنسفي يجيزون حمل الطعام ببعض المحمول، ونسج الثوب ببعض المنسوج لتعامل أهل بلادهم بذلك، ومن لم يجوزه قاسه على قفيز الطحان، والقياس يترك بالتعارف، ولئن قلنا أنه ليس بطريق القياس بل النص يتناوله دلالة فالنص يخص بالتعارف.
4۔ چوتھا اشکال یہ ہے کہ اس صورت میں اجارے کی مدت طے نہیں ہوتی۔ اور مدت کی جہالت سے بھی عقد فاسد ہو جاتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں مدت اجارہ اگرچہ فی الجملہ مجہول ہوتی ہے لیکن یہ جہالت، جہالت محضہ نہیں بلکہ اس
میں کسی قدر تعین ہوتا ہے۔ مثلاً عموماً یہ مدت جانور کے بچہ جننے تک ہوتی ہے۔ اور جو جہالت، جہالت محضہ نہ ہو اور اس کا عرف بھی ہو تو وہ جہالت مفضی الی النزاع نہیں ہوتی۔ اس لیے ایسی جہالت مفسد عقد نہیں۔ تاہم پھر بھی اس کی مدت طے کر لی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے جیسا کہ جواب کے شروع میں بھی یہ بات لکھ دی ہے۔
في رد المحتار (9/ 78)
( يفسدها ) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار.
قال الشامي تحت قوله: (أو مدة) إلا فيما استثنى. قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة، ويطيب الاجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل….. وقوله: (وكشرط طعام عبد وعلف دابة) في الظهيرية: استأجر عبدا أو دابة على أن يكون علفها على المتسأجر، ذكر في الكتاب أنه لا يجوز وقال الفقيه أبو الليث: في الدابة نأخذ بقول المتقدمين، أما في زماننا فالعبد يأكل من مال المستأجر عادة اه. ….
أقول: المعروف كالمشروط، وبه يشعر كلام الفقيه كما لا يخفى على النبيه، ثم ظاهر كلام الفقيه أنه لو تعورف في الدابة ذلك يجوز. تأمل.
والحيلة أن يزيد في الاجرة قدر العلف ثم يوكله ربها بصرفه إليها…. إلخ
وفي شرح المجلة (2/ 582):
وعلل بعض المشائخ صحة العقد في كل شهر مع جهالة المدة بتعامل الناس عليها من غير نكير منكر وما اعترض به الزيلعي على هذا التعليل من أن التعامل إذا كان مخالفاً للدليل لا يعتبر. رده في الفتح بأن التعامل إذا وقع من غير نكير منكر فقد حل محل الإجماع والإجماع دليل قطعي والدليل الذي خالفه التعامل ههنا إنما هو كون جهالة المدة مفسدة للعقد وهو موجب القياس والقياس دليل ظني لا يصلح لمعارضة الدليل القطعي فضلاً عن أن لا يعتبر القطعي في مقابلته على أن المقرر أن الجهالة المفسدة هي مفضية للنزاع وجهالة المدة فيما نحن فيه ليست بمفضية إليه إذ لكل واحد منهما نقض العقد في رأس كل شهر فكيف يقع النزاع . اھ. ملخصاً……..فقط و الله تعالیٰ اعلم
جواب دیگر
مذکورہ صورت میں خدمت کرنے والے کی طرف سے دو چیزیں ہیں:
1۔ خدمت کا عمل یعنی جانور کو کھولنا، باندھنا، اسے چارہ ڈالنا، اس کی مزید دیکھ بھال کرنا۔
2۔ جانور کا چاہر، خواہ اپنا کاشت کر کے مہیا کرے یا خرید کر مہیا کرے، یا کسی مباح جگہ سے کاٹ کر لائے، اور جانور کو کھلائے۔
اور جانور کے مالک کی طرف سے خدمت والے کی ان دونوں چیزوں کا بدل اس جانور کا نصف ہے، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے بھی نصف نصف ہوں گے۔
مذکورہ صورت میں جانور کے نصف کو خدمت کے عمل کی اجرت بنانا درست ہے۔ البتہ نصف جانور کو چارے کی قیمت قرار دینا درست نہیں۔ لہذا جانور کو ادھارے پر دینے کی مذکورہ صورت جائز نہیں۔
البتہ اگر خدمت کرنے والا جانور کو کسی مباح جگہ پر چراتا ہے، چارہ خود کاٹ کر یا خرید کر یا کاشت کر کے نہیں ڈالتا، تو پھر مذکورہ صورت جائز ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر خدمت کرنے والا تبرعاً اور اپنی خوشی سے چارہ خود کاٹ کر یا خرید کر یا کاشت کر کے ڈالتا ہے، جانور کے مالک کی طرف سے اس پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے تو پھر بھی یہ صورت جائز ہے۔
نوٹ: جواز کی تمام صورتوں میں کچھ نہ کچھ مدت متعین ہونا ضروری ہے۔
وإن استأجر على رعايتها مدة معلومة بنصفها أو جزء معلوم منها صح، لأن العمل والأجر المدة معلوم فصح، كما جعل الأجر دراهم ويكون النماء الحاصل بينهما بحكم الملك، لأنه ملك الجزء المجعول له منها في الحال، فيكون له نماؤه كما لو اشتراه………. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved