• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ادھیارے پر جانور لینے کا حکم

استفتاء

1۔ایک آدمی گائے کا بچہ لے کر دوسرے کو دے دیتا ہے کہ وہ اس کی دیکھ بھال کرے  اور جب وہ بڑا ہوجائے تو اسے بیچا جائے گا اور بچے کی قیمت سے زائد جتنا نفع ہوگا وہ دونوں میں تقسیم ہوگا  تو کیا یہ صورت ازروئے شریعت جائز ہے؟

2۔ ایک جانور جس کی قیمت تیس ہزار ہے اور دو آدمی مل کر اسے خریدتے ہیں اور ایک فریق اسے اپنے  گھر رکھ لیتا ہے  اور ٹوٹل خرچ وہی  فریق کرتا ہے اور سال دو سال بعد جب اسے بیچتے ہیں تو قیمت دونوں میں تقسیم ہوتی ہے جبکہ دوسرا فریق  خرچہ کی بنیاد  پر کوئی نفع نہیں لیتا تو کیا یہ صورت جائز ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: دوسرا فریق خرچے اور دیکھ بھال کی بنیاد پر  نفع یا حقیقی خرچہ بھی کیوں نہیں لیتا؟ ان دونوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

جواب وضاحت: آپس میں دوستانہ تعلق ہے جس وجہ سے خرچے کا معاوضہ نہیں لیتا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت فقہ حنفی کی رُو سے تو جائز نہیں البتہ فقہ حنبلی کی بعض روایات کی رُو سے جائز ہے لہٰذا اگر مذکورہ صورت کا عام رواج ہو تو فقہ حنبلی کی بعض روایات پر عمل کرنے کی گنجائش ہے تاہم کوئی احتیاط کرے تو اچھی بات ہے۔

توجیہ : مذکورہ صورت ادھیارے کی ہی ہے جس کی اصل یہ ہے کہ اس جانور کی قیمت خرید کو مالک کی طرف سے راس المال بنا یا گیا ہے اور اس میں ہونے والے اضافے کو نفع بنا کر فریقین میں  تقسیم کیا گیا ہے حنابلہ کے  نزدیک جس طرح دودھ اور بچوں  کی مد میں ہونے والا اضافہ باہم تقسیم کرنا جائز ہے اسی طرح قیمت میں ہونے والے اضافہ کو نفع قرار دے  کر باہم تقسیم کرنا بھی جائزہو گا ۔

2۔یہ صورت فقہ  حنفی کی رُو سے  بھی  جائز ہے اور اس صورت میں ایک بندہ جو خرچ اپنی خوشی سے کرتا ہے وہ اس کی طرف سے تبرع (احسان ) سمجھا جائے گا ۔

1۔تبیین الحقائق (4/49) میں ہے:

قال الولوالجي في فتاويه امرأة أعطت بذر القز وهو ‌بذر ‌الفيلق بالنصف امرأة فقامت عليه حتى أدرك فالفيلق لصاحبة البذر؛ لأنه حدث من بذرها ولها على صاحبة البذر قيمة الأوراق وأجرة مثلها وعلى هذا إذا دفع البقر إلى إنسان بالعلف ليكون الحادث بينهما بالنصف فالحادث كله لصاحب البقر وله على صاحب البقر ثمن العلف وأجر المثل، وكذا إذا دفع الدجاجة ليكون البيض بالنصف. اهـ. أتقاني

الشرح الکبیر لابن قدامہ (6/19) میں ہے:

ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها وصوفها وشعرها ونسلها أو نصفه أو جميعه لم يجز نص عليه أحمد في رواية سعيد بن محمد النسائي لان الاجر غير معلوم ولا يصلح عوضا في البيع، قال اسمعيل بن سعيد سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلى الرجل على أن يعلفها ويحفظها وولدها بينهما فقال اكره ذلك وبه قال ابو ايوب وأبو خيثمة ولا أعلم فيه مخالفا لان العوض معدوم مجهول لا يدرى أيوجد ام لا، والاصل عدمه ولا يصلح أن يكون ثمنا، فان قيل فقد جوزتم دفع الدابة إلى من يعمل عليها بنصف مغلها قلنا انما جاز ثم تشبيها بالمضاربة [لعل الصواب المزارعة كما في مطالب أولي النهي: 3/594، و المغني: 5/8. ناقل] ولانها عين تنمي بالعمل فجاز اشتراط جزء من النماء كالمضاربة والمساقاة

وذكر صاحب المحرر رواية أخرى انه يجوز بناء على ما إذا دفع دابته أو عبده بجزء من كسبه والاول ظاهر المذهب لما ذكرنا من الفرق، وعلى قياس ذلك إذا دفع نحله إلى من يقوم عليه بجزء من عسله وشمعه يخرج على الروايتين.

غیر سودی بینکاری(288) میں ہے:

’’اور میں نے اپنے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ سے حضرت حکیم الامہؒ کا یہ ارشاد بار ہا سنا کہ میں نے ابو حنیفۂ عصر حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ سے اس بات کی صریح اجازت لی ہے کہ خاص طور پر معاملات کے باب میں جہاں ابتلاء عام ہو، وہاں چاروں ائمہ میں سے جس امام کے مذہب کی گنجائش نکلتی ہو، وہاں وہ گنجائش دی جائے‘‘

امداد الفتاویٰ(7/301) میں ہے:

سوال:  ***نے اپنا بچھڑا بکر کو دیا کہ تو اس کی پرورش کر بعد جوان ہونے کے اس کی قیمت کرکے ہم دونوں میں سے جو چاہے گا نصف قیمت دوسرے کو دے کراسے رکھ لے گا، یا ***نے ***کو ریوڑ سونپا اور معاہدہ کر لیا کہ اس کو بعد ختم سال پھر پڑتال لیں گے، جو اس میں اضافہ ہوگا وہ باہم تقسیم کر لیں گے، یہ دونوں عقد شرعاً جائز ہیں یا قفیز طحان کے تحت میں ہے جیسا کہ عالمگیری جلد پنجم ص ۲۷۱ مطبوعہ احمدی میں ہے: دفع بقرة إلی رجل علی أن یعلفها وما یکون من اللبن والثمن بينهما أنصافاً فالإجارة فاسدة

الجواب : كتب إلى بعض الأصحاب من فتاوى ابن تيمية كتاب الاختيارات مانصه ولو دفع دابته أو نخلة إلى من يقوم له وله جزء من نمائه صح، وهو رواية عن أحمد  ۔ (ج٤ ص ٧٥ س ١٤) پس حنفیہ کے قواعد پر تو یہ عقد نا جائز ہے۔ كما نقل في السوال عن عالمگيرية لیکن بنا بر نقل بعض اصحاب امام احمد کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے، پس تحرز احوط ہے ، اور جہاں ابتلاء شدید ہو تو سع کیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved