• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ادھیارے پر جانور لینے کا حکم

استفتاء

ایک آدمی گائے کا بچہ(مادہ)  لیکر دوسرے کو دے دیتا ہے کہ وہ اس کی دیکھ بھال کرے یہاں تک کہ وہ بچہ جننے کے قابل ہوجائے جب وہ بچہ جن لے تو بچہ دیکھ بھال کرنے والے کا ہوگا اور گائے اصل مالک کی ہوگی تو کیا یہ صورت از روئے شریعت جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت فقہ حنفی کی رُو سے تو جائز نہیں البتہ فقہ حنبلی کی بعض روایات کی رُو سے جائز ہے لہٰذا اگر مذکورہ صورت کا عام رواج ہو تو فقہ حنبلی کی بعض روایات پر عمل کرنے کی گنجائش ہے تاہم کوئی احتیاط کرے تو اچھی بات ہے۔

تبیین الحقائق (4/49) میں ہے:

قال الولوالجي في فتاويه امرأة أعطت بذر القز وهو ‌بذر ‌الفيلق بالنصف امرأة فقامت عليه حتى أدرك فالفيلق لصاحبة البذر؛ لأنه حدث من بذرها ولها على صاحبة البذر قيمة الأوراق وأجرة مثلها وعلى هذا إذا دفع البقر إلى إنسان بالعلف ليكون الحادث بينهما بالنصف فالحادث كله لصاحب البقر وله على صاحب البقر ثمن العلف وأجر المثل، وكذا إذا دفع الدجاجة ليكون البيض بالنصف. اهـ. أتقاني

الشرح الکبیر لابن قدامہ (6/19) میں ہے:

ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها وصوفها وشعرها ونسلها أو نصفه أو جميعه لم يجز نص عليه أحمد في رواية سعيد بن محمد النسائي لان الاجر غير معلوم ولا يصلح عوضا في البيع، قال اسمعيل بن سعيد سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلى الرجل على أن يعلفها ويحفظها وولدها بينهما فقال اكره ذلك وبه قال ابو ايوب وأبو خيثمة ولا أعلم فيه مخالفا لان العوض معدوم مجهول لا يدرى أيوجد ام لا، والاصل عدمه ولا يصلح أن يكون ثمنا، فان قيل فقد جوزتم دفع الدابة إلى من يعمل عليها بنصف مغلها قلنا انما جاز ثم تشبيها بالمضاربة [لعل الصواب المزارعة كما في مطالب أولي النهي: 3/594، و المغني: 5/8. ناقل] ولانها عين تنمي بالعمل فجاز اشتراط جزء من النماء كالمضاربة والمساقاة

وذكر صاحب المحرر رواية أخرى انه يجوز بناء على ما إذا دفع دابته أو عبده بجزء من كسبه والاول ظاهر المذهب لما ذكرنا من الفرق، وعلى قياس ذلك إذا دفع نحله إلى من يقوم عليه بجزء من عسله وشمعه يخرج على الروايتين.

غیر سودی بینکاری(288) میں ہے:

’’اور میں نے اپنے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ سے حضرت حکیم الامہؒ کا یہ ارشاد بار ہا سنا کہ میں نے ابو حنیفۂ عصر حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ سے اس بات کی صریح اجازت لی ہے کہ خاص طور پر معاملات کے باب میں جہاں ابتلاء عام ہو، وہاں چاروں ائمہ میں سے جس امام کے مذہب کی گنجائش نکلتی ہو، وہاں وہ گنجائش دی جائے‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved