• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ادھیارے پر بکری دینا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ  ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو دودھ استعمال کرنے کے لیے بکری دی کہ اس کو سنبھالو اور دودھ استعمال کرو جب اس بکری کے دو بچے پیدا ہوں تو ایک مجھے دے دینا اور ایک خود رکھ لینا یا ایک مجھے دینا باقی آپ کے۔ کیا ازروئے شریعت ایسا کرنا جائز ہے ؟

وضاحت مطلوب ہے: 1۔ اگر ایک بچہ ہوا تب بھی وہ بچہ مالک لے گا؟2۔”ایک مجھے دینا باقی آپ کے” سے کیا مراد ہے؟3۔ اس عقد کی مدت کتنی ہے؟

جواب وضاحت :1۔ جی ہاں اگر ایک بچہ ہوا وہ بھی مالک لے گا۔2۔جب بھی بکری بچے دے گی ایک ہو یا زائد بہرحال مالک ایک بکری ضرور لے گا۔3۔جب تک بکری زندہ ہے لیکن مالک جب چاہے اپنی بکری واپس بھی لے سکتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ معاملہ  ناجائز ہے۔

توجیہ : فقہ حنفی کے مطابق مذکور ہ صورت اجارے کی ہے اور اجارے کی صحت کے لیے اجرت کا یقینی ہونا اور معلوم ہونا  ضروری ہے جبکہ مذکورہ صورت میں اجرت  یعنی بکری کے بچوں اور دودھ کا ہونا غیر یقینی بھی  ہے اور مجہول بھی ہے  وہ اس طرح کہ ممکن ہے کہ بکری ایک ہی بچہ دے جس کا حقدار صرف مالک ہوگا اور پالنے والا بچے سے محروم رہ جائے گا اور اسی طرح یہ بھی غیر یقینی  اور مجہول ہے کہ بکری دودھ دے یا نہ دے اور دے تو کتنا دے لہٰذا یہ صورت  فقہ حنفی کے مطابق اجارہ فاسدہ ہونے کی بنا پر ناجائز ہے۔ نیز  مذکورہ صورت دیگر  ائمہ (مثلاً حنابلہ) کے نزدیک بھی جائز نہیں کیونکہ ان کے نزدیک اگر دودھ اور بچوں کو بطور اجرت مقرر کیا جائے تو ان میں فیصدی تناسب سے شرکت ضروری ہے جبکہ مذکورہ صورت میں نہ دودھ میں فیصدی تناسب سے شرکت ہے اور نہ بچوں میں فیصدی تناسب سے شرکت ہے   لہٰذا مذکورہ صورت  نہ فقہ حنفی کے مطابق جائز ہے اور نہ کسی اور فقہ (مثلاً فقہ حنبلی ) کے مطابق جائز ہے۔

شامی (9/65) میں ہے:

‌فكل ‌ما ‌أفسد ‌البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار

ہدایہ(4/424) میں ہے:

وهى (المزارعة) فاسدة عند أبى حنيفة …… وله …… ولان الاجر مجهول او معدوم وكل ذلك مفسد

ہندیہ (5/445) میں ہے:

‌دفع ‌بقرة ‌إلى ‌رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة

المغنی لابن قدامہ(5/7) میں ہے:

وإن ‌دفع ‌رجل ‌دابته إلى آخر ليعمل عليها، وما يرزق الله بينهما نصفين أو أثلاثا أو كيفما شرطا، صح ……… أنها عين تنمى بالعمل عليها فصح العقد عليها ببعض نمائها، كالدراهم والدنانير، وكالشجر في المساقاة، والأرض في المزارعة. وقولهم: إنه ليس من أقسام الشركة، ولا هو مضاربة. قلنا: نعم، لكنه يشبه المساقاة والمزارعة، فإنه دفع لعين المال إلى من يعمل عليها ببعض نمائها مع بقاء عينها.

المغنی لابن قدامہ(5/257) میں ہے:

‌والشروط ‌الفاسدة ‌في ‌المساقاة والمزارعة تنقسم قسمين أحدهما ما يعود بجهالة نصيب كل واحد منهما، مثل ما ذكرنا ها هنا، أو أن يشترط أحدهما نصيبا مجهولا، أو دراهم معلومة، أو أقفزة معينة، أو أنه إن سقى سيحا فله كذا، وإن سقى بكلفة فله كذا. فهذا يفسدها؛ لأنه يعود إلى جهالة المعقود عليه، فأشبه البيع بثمن مجهول.

المغنی لابن قدامہ(5/266) میں ہے:

فإن قيل: ‌فقد ‌جوزتم ‌دفع الدابة إلى من يعمل عليها بنصف ربحها. قلنا: إنما جاز ثم تشبيها بالمضاربة؛ لأنها عين تنمى بالعمل، فجاز اشتراط جزء من النماء.

الفقہ الاسلامی وادلتہ (4/4692) میں ہے:

واشترطوا ‌بيان ‌نصيب ‌كل ‌واحد من العاقدين، فإن جهل النصيب فسدت المزارعة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved