• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ادمان پودے کی بیع کا حکم

استفتاء

ہمارے صوبہ بلوچستان کے بعض اضلاع میں منشیات کے کارخانے ہیں، جو کہ پہلے صرف چرس افیون اور ہیروئن بناتے تھے، لیکن آج کل یہ کارخانے ایفیڈرا(Ephedra) کے پودے سے (جس کو علاقہ زبان میں “ادمان” کہا جاتا ہے) کیمیائی عمل کے ذریعے میتھیمفیٹامین(Methamphetamine) نامی کیمیکل تیار کرتے ہیں۔ پھر اس سے مزید کیمیائی عمل کے بعد منشیات کی دنیا کا سب سے خطرناک نشہ کرسٹل میتھ پاؤڈر(Crystal Meth) تیار کیا جاتا ہے۔آج کل یہاں کافی لوگ اس جڑی بوٹی کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ جو اس بوٹی کو  پہاڑوں سے لا کر مقامی کارخانوں کو فروخت کرتے ہیں اور کارخانوں والے اس جڑی بوٹی سے مذکورہ بالا خطرناک منشیات بناتے ہیں۔ یاد رہے!   کہ ایفیڈرا ( ادمان )کا پودا بذاتِ خود ایک مفید جڑی بوٹی ہے۔ ہمارے قدیم دیہاتی لوگ چمڑے سے جب من مشکیزہ بناتے تھے تو اس جڑی بوٹی کو چمڑے میں ڈال دیتے تھے ،جس کی وجہ سے چند ہی دنوں میں چمڑا خشک ہو کر مشکیزہ بن جاتا تھا ۔اسی طرح تمام میڈیسن کمپنیاں اس جڑی بوٹی سے کشید شدہ کیمیکل کو کھانسی، زکام ،گلے ،سینے اور دیگر بہت سی میڈیسن میں استعمال کرتی ہیں ،لیکن اب علاقائی سطح پر کیمیائی عمل کے بعد اس جڑی بوٹی سے صرف اور صرف کرسٹل میتھ بنایا جاتا ہے،  جس کے سامنے چرس، افیون اور ہیروئن کا نشہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اب دریافت یہ کرنا ہے کہ مذکورہ جڑی بوٹی کا کاروبار شرعاً  جائز ہے یا نہیں؟  کیونکہ اس سے بننے والے نشہ نے جوان نسل کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ایسی بوٹی کا کاروبار جس کو عمومی طور پر  بطور نشہ کے استعمال کیا جاتا ہو مکروہ ہے  (کیونکہ اس کا عمومی استعمال ناجائز ہی ہے)  خاص طور پر جب کہ خریدار کے بارے میں معلوم بھی  ہو کہ وہ اس سے نشہ بنائے گا، البتہ چونکہ بطور دوا ان کا استعمال جائز ہے اسی لیے اگر کسی ایسی کمپنی کو بیچا جائے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ اس کی دوائیاں ہی بنائیں گے تو انہیں بیچی جا سکتی ہیں جیسا کہ مزامیر صاحبین کے نزدیک ایسے شخص کو بیچنا جس کے بارے میں یقین ہو  کہ نہ وہ اس کا ناجائز استعمال کرے گا اور  نہ ایسے شخص کو بیچے گا جو اس کا ناجائز استعمال کرے  جائز ہے ۔

فتاوی عالمگیریہ(4/349) میں ہے:

ويجوز بيع البربط والطبل والمزمار والدف والنرد وأشباه ذلك في قول أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – وعندهما لا يجوز بيع هذه الأشياء قبل الكسر ذكر المسألة في إجارات الأصل من غير تفصيل وذكر في السير الكبير تفصيلا على قولهما فقال إن باعها ممن لم يستعملها ولا يبيع هذا المشتري ممن يستعملها فلا بأس ببيعها قبل الكسر فإن باعها ممن يستعملها أو يبيعها هذا المشتري ممن يستعملها لا يجوز بيعها قبل الكسر

شامی(6/454) میں ہے:

وصح ‌بيع ‌غير ‌الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لا يجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل

وفي الشامية: (قوله وصح ‌بيع ‌غير ‌الخمر) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان، لكن الفتوى على قوله في البيع، وعلى قولهما في الضمان إن قصد المتلف الحسبة وذلك يعرف بالقرائن، وإلا فعلى قوله كما في التتارخانية وغيرها.ثم إن البيع وإن صح لكنه يكره كما في الغاية

فتاوی بزازيہ علی ہامش الہندیہ(9/265) میں ہے:

وشرب البنج للتداوی لا باس به

شامی (6/457) میں ہے:

(قوله ‌ويحرم ‌أكل ‌البنج) هو بالفتح: نبات يسمى في العربية شيكران، يصدع ويسبت ويخلط العقل كما في التذكرة للشيخ داود. وزاد في القاموس: وأخبثه الأحمر ثم الأسود وأسلمه الأبيض، وفيه: السبت يوم الأسبوع، والرجل الكثير النوم، والمسبت: الذي لا يتحرك. وفي القهستاني: هو أحد نوعي شجر القنب، حرام لأنه يزيل العقل، وعليه الفتوى، بخلاف نوع آخر منه فإنه مباح كالأفيون لأنه وإن اختل العقل به لا يزول، وعليه يحمل ما في الهداية وغيرها من إباحة البنج كما في شرح اللباب اهـ.

أقول: هذا غير ظاهر، لأن ما يخل العقل لا يجوز أيضا بلا شبهة فكيف يقال إنه مباح: بل الصواب أن مراد صاحب الهداية وغيره إباحة قليله للتداوي ونحوه ومن صرح بحرمته أراد به القدر المسكر منه، يدل عليه ما في غاية البيان عن شرح شيخ الإسلام: أكل قليل السقمونيا والبنج مباح للتداوي، ما زاد على ذلك إذا كان يقتل أو يذهب العقل حرام اهـ فهذا صريح فيما قلناه مؤيد لما سبق بحثناه من تخصيص ما مر من أن ما أسكر كثيره حرم قليله بالمائعات، وهكذا يقول في غيره من الأشياء الجامدة المضرة في العقل أو غيره، يحرم تناول القدر المضر منها دون القليل النافع، لأن حرمتها ليست لعينها بل لضررها. وفي أول طلاق البحر: من غاب عقله بالبنج والأفيون يقع طلاقه إذا استعمله للهو وإدخال الآفات قصدا لكونه معصية، وإن كان للتداوي فلا لعدمها، كذا في فتح القدير، وهو صريح في حرمة البنج والأفيون لا للدواء

شامی(6/455) میں ہے:

قلت: وفي طلاق البزازية: وقال محمد ما أسكر كثيره فقليله حرام، وهو نجس أيضا

(قوله وقال محمد إلخ) أقول: الظاهر أن هذا خاص بالأشربة المائعة دون الجامد كالبنج والأفيون، فلا يحرم قليلها بل كثيرها المسكر، وبه صرح ابن حجر في التحفة وغيره، وهو مفهوم من كلام أئمتنا لأنهم عدوها من الأدوية المباحة وإن حرم السكر منها بالاتفاق كما نذكره، ولم نر أحدا قال بنجاستها ولا بنجاسة نحو الزعفران مع أن كثيره مسكر، ولم يحرموا أكل قليله أيضا، ويدل عليه أنه لا يحد بالسكر منها كما يأتي، بخلاف المائعة فإنه يحد، ويدل عليه أيضا قوله في غرر الأفكار: وهذه الأشربة عند محمد وموافقيه كخمر بلا تفاوت في الأحكام، وبهذا يفتى في زماننا اهـ فخص الخلاف بالأشربة، وظاهر قوله بلا تفاوت أن نجاستها غليظة فتنبه، لكن يستثنى منه الحد فإنه لا يجب إلا بالسكر، بخلاف الخمر. والحاصل أنه لا يلزم من حرمة الكثير المسكر حرمة قليله ولا نجاسته مطلقا إلا في المائعات لمعنى خاص بها.أما الجامدات فلا يحرم منها الا الكثير المسكر

شامی(4/42) میں ہے:

وبه علم ‌أن ‌المراد ‌الأشربة المائعة، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميا قتالا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية

تکملہ فتح المہم(3/342) میں ہے:

ولذلك افتى كثير من الحنفيه بقول الجمهور في حق الحرمة وبقول ابي حنيفة رحمه الله في جواز بيع غير الخمر وعدم وجوب الحد منه الا اذا اسكر وقد صرح ابن عابدين في الاشربة من رد المحتار بان الفتوي على قول ابي حنيفة في جواز البيع مع الكراهة والظاهر ان هذا الكراهة  انما تثبت اذا تعاطاه الرجل لغرض غير مشروع واما اذا تعاطاه لغرض مشروع كالدواء والضماد وغيره فيما يجوز استعماله فيه فالظاهر انتفاء الكراهه حينئذ

امداد الاحکام(3/405) میں ہے:

سوال: افیون کا فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اس کو دوا میں استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟

 جواب: افیون کی بیع جائز ہے اور دوا میں نشہ سے کم مقدار میں استعمال بھی جائز ہے۔ نشہ کی مقدار کا استعمال جائز نہیں۔

کفایت المفتی(9/124) میں ہے:

سوال: افیون کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟

 جواب: افیون کی خرید و فروخت شرعاً جائز ہے، گو قانونِ وقت اس کو لائسنس کے ساتھ جائز رکھتا ہے مگر شرع میں یہ قید نہیں، اس کی قیمت کے پیسے جائز اور حلال ہیں۔

احسن الفتاوی(6/494) میں ہے:

سوال: افیون کی کاشت کرنا اور بیع  کرنا جائز ہے یا نہیں؟

 جواب:  زمانِ سابق میں افیون دوا  میں زیادہ استعمال نہیں ہوتی تھی، بلکہ عموماً تلہی کے (شوقیانہ) طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ اس لیے بعض فقہاء رحمہم اللہ تعالی نے اس کی بیع کو مکروہ تحریمی فرمایا ہے ۔مگر آج کل افیون دوا کے طور پر کثرت سے استعمال ہونے لگی ہے اور علاج میں بڑی اہمیت اور شہرت حاصل کر چکی ہے،  بلکہ ضرورتِ شدیدہ کی حد تک پہنچ گئی ہے ، لہذا اس کی بیع  بلا کراہت جائز ہے،  البتہ جس شخص کے بارے میں ظنِ  غالب ہو کہ وہ تلہی کے طور پر استعمال کرے گا، اس کے ہاتھ بیچنا مکروہ تحریمی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved