• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایڈوانس بیلنس

استفتاء

**الیکٹرک میں الیکٹریشن، الیکٹرک اور ہارڈ ویئر سے متعلق سامان مثلاً پنکھے، بجلی کے بٹن، انرجی سیور LED بلب، تار کوائل شپ (ایک خاص قسم کی مہنگی تار) رائونڈشپ تار (خاص قسم کی تار جو بنڈل کی شکل میں ہوتی ہے اور کسٹمر کی ضرورت کے مطابق اس کو بنڈل سے کاٹ کر دی جاتی ہے) وغیرہ کی خریداری کی جاتی ہے۔ ** جن کمپنیوں سے خریداری کرتی ہے ان میں سے اکثر کے ساتھ ادائیگی کے سلسلے میں ایک طریقہ یہ چل رہا ہے کہ جس کمپنی سے خریداری کے لیے بڑی رقم درکار ہوتی ہے جیسے پاکستان کیبلز وغیرہ، تو ان کے ساتھ **کی طرف سے یہ طے کیا گیا ہے کہ سامان کا آرڈر ہو یا نہ ہو لیکن ایک ہفتہ بعد آپ کو ایک لاکھ روپے کی ادائیگی کی جائے گی۔ عموماً ** کی طرف سے تسلسل کے ساتھ ادائیگی کی وجہ سے متعلقہ کمپنی کے پاس بعض اوقات رقم ایڈوانس جمع ہوتی رہتی ہے۔

مذکورہ بالا معاملہ شرعاً کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جو رقم کمپنی کے پاس ایڈوانس جمع ہوتی رہتی ہے کمپنی عموماً اسے استعمال کرتی ہے جس کی وجہ سے اس ایڈوانس کی حیثیت ایسے قرض کی بن جاتی ہے جس میں بیع مشروط یا معروف ہوتی ہے جو کہ ناجائز ہے اس کے جواز کی  صورت یہ ہے کہ ** کی جانب سے اس ایڈوانس کے عوض خریداری مشروط یا معروف نہ ہو۔

(۱)            الدر المختار مع رد المحتار: (۶/۳۹۴)میں ہے:

وکره (اقراض) أي اعطاء (بقال) کخباز وغيره (دراهم) أو برلخوف هلکه لوبقي بيده يشترط (ليأخذ) متفرقا (منه) بذلک (ماشاء) و لو لم يشترط حالة العقد لکن يعلم أنه يدفع لذلک شرنبلالية، لأنه قرض جرنفعا و هو بقاء ماله فلو أودعه لم يکره لأنه لوهلک لايضمن وکذا لو شرط ذلک قبل الاقراض ثم اقرضه لم يکره اتفاقاً قهستاني وشرنبلالية۔

في الشامية تحت قوله يشترط جملة حالية أي يشترط الأخذ و قيد به لما في غاية البيان انما يکره اذا کانت المنفعة مشروطة في العقد والا فلا لان المستقرض يکون متبرعاً بهافصار کالرجحان الذي دفعه ﷺ۔

قوله ولولم يشترط حالة العقد الخ کذا في بعض النسخ وسقط من بعضها قال ط والأولي أن يقول أولم يشترط ليفيد اتحاد الحکم في الصورتين ويکون عطفا علي قوله: يشترط قال في الشرنبلالية وجعل المسألة  في التجنيس والمزيد علي ثلاثة اوجه: إما ان يشترط عليه في القرض ان ياخذها تبرعا أو شرآء أولم يشترط ولکن يعلم أنه يدفع لهذا وقال قبل ذلک ففي الوجه الاول والثاني: لايجوز لانه قرض جرمنفعة وفي الوجه الثالث: جاز لانه ليس بشرط المنفعة فاذا أخذ يقول في کل وقت يأخذ هو علي ماقاطعتک عليه۔

اقول: الوجه الثالث يلزم منه الثاني فکان ينبغي أن يکره ايضاً الا أن يحمل الثالث علي ما إذا أعرضا وقت القرض عن الشرط المذکور بينهما قبله۔

(۲)         الهداية (۴/۳۷۹):

من وضع درهما عند بقال ياخذ منه ماشاء يکره له ذالک؛ ’’لانه ملکه قرضا جربه نفعا، وهو ان ياخذ منه ماشاء حالا فحالا‘‘ ونهي رسول اللّٰه عليه الصلاة والسلام عن قرض جرنفعا‘‘، و ينبغي ان يستودعه ثم ياخذ منه ما شاء جزء ا فجزء ا؛ لانه وديعة وليس بقرض، حتي لو هلک لاشئ علي الآخذ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved