• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایڈوانس دی گئی رقم پر زکوٰۃ

استفتاء

ایک شخص ایک کمپنی سے  کسی مشین کا معاہدہ کرتا ہے جس کی مالیت ایک کروڑ ہے جو کمپنی چائنہ سے منگوا کر چھ ماہ بعد دےگی ،اس شخص نے چھ ماہ میں کمپنی کو 40 لاکھ دینا ہے اور بطور ایڈوانس یا بطور بکنگ پانچ لاکھ دیتا ہے۔ اب پوچھنا یہ تھا کہ جوپانچ لاکھ بطور ایڈوانس دیا ہے کیا اس کی بھی زکوۃ نکالنی ہوگی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس پانچ لاکھ پر زکوۃ آئے گی-

توجیہ: مذکورہ صورت میں مشین فی الحال کمپنی کی ملکیت میں نہیں بلکہ کمپنی یہ مشین چائنہ سے منگوا کر دے گی اور یہ بیع  سلم  بھی نہیں کیونکہ مشین کی کل قیمت معاہدے کے وقت ادا نہیں ہوئی لہذا اس معاہدے کو فی الحال بیع سلم نہیں کہہ سکتے اور اس معاہدے کے نتیجے میں جو پانچ لاکھ دیے گئے ہیں انہیں ثمن نہیں کہہ سکتے بلکہ ان پانچ لاکھ کی حیثیت فی الحال امانت کی ہے جسے عربی میں “ہامش الجدیہ” کہتے ہیں لہذا اس پانچ لاکھ پر زکوۃ آئے گی-

شامی (7/245) میں ہے:

وبطل ……… (وبيع ما ليس في ملكه) لبطلان بيع المعدوم وماله خطر العدم (لا بطريق السلم) فانه صحيح لانه عليه الصلاه والسلام “نهى عن بيع ما ليس عند الانسان ورخص في السلم”

شامی (5/213) میں ہے:

وبقي من الشروط قبض رأس المال ولو عينا قبل الافتراق بابدانهما……… وهو شرط بقائه على الصحة

فقہ البیوع (1/119) میں ہے:

وقد جرت العاده في بعض المعاملات اليوم ان احد طرفي العقد يطالب الاخر بدفع بعض المال عند الوعد بالبيع قبل انجاز العقد وذلك للتاكد من جديته في التعامل……….. وكما جرت العاده في بعض البلاد ان المشتري يقدم مبلغا من الثمن الى البائع قبل انجاز البيع وذلك لتاكيد وعده بالشراء ويسمى في العرف “هامش الجدية” او “ضمان الجدية” (وان لم يكن ضمانا بالمعنى الفقهي) فهذه الدفعات ليست عربونا، وانما هي امانة بيد البائع، تجري عليه احكام الامانات .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved