- فتوی نمبر: 29-58
- تاریخ: 20 اپریل 2023
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ہم نےG1لہسن( تھوم ) garlic لگایا ہے جو بہت نایاب ہے تو وہ ایڈوانس میں سیل ہو جاتا ہے بٹائی کرنے سے تقریباً دو تین ماہ پہلے یعنی کھڑی فصل،تو ہم آدھی رقم ایڈوانس لیتے ہیں اور آدھی رقم تھوم حوالہ کرتے وقت، تو برائے مہربانی اس کو بیچنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ابھی بٹائی کو دو مہینے باقی ہیں اور ریٹ 2000 روپے فی کلوگرام ہےتو ہم ایک ہزار ایڈوانس لیتے ہیں اور ایک ہزار تھوم حوالہ کرتے وقت لیتے ہیں۔
وضاحت مطلوب ہے:(1) آپ لہسن کی ایک خاص مقدار فروخت کرتے ہیں یا پھر فصل فروخت کرتے ہیں؟ (2) ایڈوانس فروخت کرنے کے بعد اگر فصل کم نکلے یا نہ نکلے تو کیا کیا جاتا ہے؟ (3) جب آپ لہسن ایڈوانس فروخت کرتے ہیں تو اس وقت لہسن کی ادائیگی کا وقت متعین کرتے ہیں یا نہیں؟(4) کیا آپ کے علاقہ میں اس طرح کے معاملے کا عام رواج ہے اور ادائیگی کے لیے فصل کاٹنے کا وقت ہی طے ہوتا ہے؟
جواب وضاحت: (1) لہسن کی ایک خاص مقدار فروخت کرتے ہیں۔(2) فصل کم نکلے یا نہ نکلے تو بھی اسی کوالٹی کے لہسن کی مقدار پوری کرکے دینی ہوتی ہے۔(3) فصل کٹنے کا وقت طے ہوتا ہے اور عام طور پر فریقین کو معلوم ہوتا ہے کہ فصل کٹنے کا وقت کیا ہے اس لیے کوئی جھگڑے کی صورت نہیں ہوتی۔(4)جی ہمارے علاقے میں اس کا عام رواج ہے اور ادائیگی کے لیے بھی فصل کاٹنے کا وقت ہی طے ہوتا ہے۔
معاہدہ نامہ:
…………….(اول) …………(دوم)
بقائم ہوش وحواس لکھ دیتے ہیں کہ من فریق دوم نے اول سے لہسن GI گارلک مقدار تین ہزار کلو،فی کلو قیمت 1400 روپے ٹوٹل بنے 4200000 جس میں سے مبلغ 2100000 من مقر اول نے نقد وصول کیا اور بقایا رقم 2100000 جب لہسن GIکی Harvesting(ہارویسٹنگ) ہونے پر دوم ادا کرے گا اور اول GIلہسن دینے کا پابند ہوگا، خدا نخواستہ آفت وغیرہ کی صورت میں اول دوم کو مذکورہ نقد رقم واپس دینے کا پابند ہوگا۔
گواہان:……………………..
نوٹ: اصل تو یہی طے ہوتا ہے کہ اگر فصل لگانے والے کی فصل میں لہسن نہ بھی لگے تو کہیں سے بھی پورا کرکے دے گا لیکن بعض دفعہ باہمی رضامندی سے معاملہ ختم کرکے پیسے بھی واپس کردئیے جاتے ہیں۔ معاہدہ نامہ کی آخری لائن کا یہ مطلب ہے۔وضاحت از سائل
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جتنی رقم ایڈوانس وصول کی ہے اسکے بقدر لہسن بیچنے کا معاملہ صحیح ہوجائے گا اور باقی میں فاسد ہوگا اس لیے آپ یا تو ساری قیمت پہلے ہی وصول کرلیا کریں یا پھر اس موقع پر صرف بیچنے کا وعدہ کرلیں لہسن نہ بیچیں بعد میں فصل تیار ہونے پر دوبارہ خرید وفروخت کا معاملہ کرلیں اور وعدہ کا مطلب یہ ہےکہ بعد میں دونوں میں سے کوئی بھی پابند نہ ہو گا اگر کوئی ایک انکار کردے تو دوسرا اسے مجبور نہیں کرسکتا ۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ اصلا مخصوص لہسن کی ایک خاص مقدار طے ہوتی ہے چاہے اسی فصل سے ہو یا کہیں اور سے نیز اس کو حوالے کرنے کی مدت بھی طے ہوتی ہے جو اگرچہ فصل کٹنےکا وقت طے ہوتا ہے لیکن چونکہ فریقین کو اس وقت کا علم ہوتا ہے اور اس میں جھگڑے کا امکان بھی نہیں ہوتا نیز مالکیہ کے نزدیک فصل کاٹنے کے وقت کو بیع سلم میں مسلم فیہ کی ادائیگی کے لیے بطور وقت طے کرنے کی گنجائش ہے، لہذا مذکورہ صورت بیع سلم کی بنتی ہے البتہ چونکہ بیع سلم کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ کل قیمت پر قبضہ معاملہ کرتے وقت ہی ہو جائے جبکہ مذکورہ صورت میں معاملہ کرتے وقت مکمل قیمت پر قبضہ نہیں ہوتا لہذا جتنی قیمت پر قبضہ کیا گیا ہے اس میں معاملہ صحیح ہوگا اور باقی میں فاسد ہوگا۔
تنویر الابصار (7/489) میں ہے:
وشرطه ……….. قبض رأس المال قبل الافتراق وهو شرط بقائه على الصحة لا شرط انقعاده بوصفها
البحر الرائق (6/273) میں ہے:
(فإن أسلم مائتي درهم في كر بر مائة دينا عليه ومائة نقدا فالسلم في الدين باطل) أي في حصته لكونه دينا بدين وصح في حصة النقد لوجود قبض رأس المال بقدره ولا يشيع الفساد؛ لأنه طارئ إذ السلم وقع صحيحا في الكل ولذا لو نقد الكل قبل الافتراق صح
بنایہ شرح الہدایہ(7/439)میں ہے:
ولايجوز أى السلم الا بأجل معلوم …………وقال مالك يجوز الاجل الي الحصاد لعدم افضائه الى المنازعة غالبا.
فقہ البیوع (1/538) میں ہے:
أما ضرب الاجل بقدوم الحاج وكذلك الى الحصاد والدياس والقطاف والجزار (بمعنى ان الثمن يجب حينما يحصد الزراع زرعهم او حينما يقطف اصحاب البساتین فانه لايجوز عند الحنفية لما ذكر صاحب الهداية انها تتقدم وتتاخر وهو قول الشافعى ايضا وروى عن الامام احمد رحمه الله تعالى انه قال ارجو ان لا يكون به بأس وبه قال مالك ابو ثور ….. والظاهر ان هذا الاختلاف مرجعه الى معلومية مواعيد الحصاد والجزار والعطاء فان كان معلوما في الجملة بحيث لايقع فيه نزاع جاز التاجيل إليها والا لم يجز والله سبحانه وتعالى اعلم
فقہ البیوع (1/577) میں ہے:
الشرط الثانى: أن يكون أجل التسليم معلوما وهذا القدر متفق عليه بين الفقهاء لقول الله سبحانه وتعالى: يآيها الذين امنوا اذا تداينتم بدين إلى اجل مسمى فاكتبوه [البقرة:286] ولقول الرسول الكريم صلى الله عليه وسلم: من اسلف فى شيئ ففى كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم اما كيفية الاجل ففيه اختلاف فصلناه فى مباحث البيع المؤجل تحت عنوان “معلومية الاجل”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved