- فتوی نمبر: 28-301
- تاریخ: 19 اگست 2022
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
***میں واقع ایک کاسمیٹک اسٹور ہے، جہاں پر کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ریٹیل اور ہول سیل کے اعتبار سے خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
T.S کی جانب سے کسی بھی دکاندار یا کسٹمر حضرات سے رقم کو بطور ایڈوانس نہیں لیا جاتا، البتہ بعض أوقات اس طرح ہوتا ہے کہ نماز کے أوقات میں آنے والے حضرات سے رقم لے لی جاتی ہے، اور نماز کے بعد اسٹور کھلنے پر ان کا مال لکھ کر پیک کر دیا جاتا ہے۔ بسا أوقات کسٹمر حضرات کی طرف سے پیسے دے دیے جاتے ہیں، اور کسٹمرکے بوجہ سفر پر چلنے جانے کی صورت میں مال نہیں لکھوایا جاتا، ، تو اس صورت میں T.S کے مالکان کسٹمر کے واپس آنے یا مال کا آرڈر لکھوانے تک اس کی دی ہوئی رقم کو بطور امانت پرچی ڈال کر رکھ دیتے ہیں، اور اس رقم کو خرچ نہیں کیا جاتا۔ اس طرح کی صورت حال کا سامنا T.S پر بہت کم ہوتا ہے۔
بعض دفعہ یہ ایڈوانس کی رقم کھلے پیسوں (ریزگاری)کی صورت میں ہوتی ہے اور T.S والوں کو کھلے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو کیا اس صورت میں ایڈوانس رقم جو کھلے پیسوں کی صورت میں ہو اس رقم کو بندھے پیسوں کے ساتھ تبدیل کیا جاسکتا ہے ؟
- ایڈوانس لینے کا کیا حکم ہے؟
- کیا ایڈوانس کی رقم کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟
- کیا ایڈوانس لی گئی رقم میں سے ریز گاری (ٹوٹے ہوئے پیسے)لی جا سکتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ایڈوانس رقم لے کر معاملہ کرنا شرعا درست ہے ۔
۲۔ایڈوانس کی رقم کواستعمال کرنا جائز نہیں ہے اگر چہ استعمال کرنے کی اجازت دی ہو کیونکہ استعمال کرنے سے یہ ایسا قرض بن جائے گا جس کے ساتھ بیع لاحق مشروط یا معروف ہے جبکہ حدیث میں بیع اورقرض کو جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
۳۔ایڈوانس کی رقم سے ریزگاری ( ٹوٹے ہوئےپیسے) نکال کربندھے نوٹوں کے ساتھ تبدیل کرنا جائز ہے۔
تبیین الحقائق(6/29،30):
ومن وضع درهما عند بقال يأخذ منه ما شاء كره له ذلك؛ لأنه إذا ملكه الدرهم فقد أقرضه إياه، وقد شرط أن يأخذ منه ما يريد من التوابل والبقول وغير ذلك مما يحتاج إليه شيئا فشيئا، وله في ذلك نفع، وهو بقاء درهمه وكفايته للحاجات، ولو كان في يده لخرج من ساعته، ولم يبق فيصير في معنى قرض جر نفعا، وهو منهي عنه، وينبغي أن يودعه إياه ثم يأخذ منه شيئا فشيئا، وإن ضاع فلا شيء عليه؛ لأن الوديعة أمانة۔
الاصل للشیبانی قطر(8/443):
قلت: أرأيت الرجل تكون عنده الوديعة فيعمل بها فيربح ولم يأذن له صاحبها؟ قال: هو ضامن للوديعة، والربح له يتصدق به، ولا ينبغي له أن يأكله. بلغنا ذلك عن إبراهيم النخعي (2). قلت: أرأيت إن عمل بها بنفسه بإذن صاحبها؟ قال: هي قرض عليه، والربح له حلال.
الدرالمختار وحاشیۃ ابن عابدین(۲/۲۶۹)
ويتصل بهذا العالم إذا سأل للفقراء شيئا وخلط يضمن.قلت: ومقتضاه أنه لو وجد العرف فلا ضمان لوجود الإذن حينئذ دلالة. والظاهر أنه لا بد من علم المالك بهذا العرف ليكون إذنا منه دلالة۔
الدر المختار: (200/6، ط: دار الفکر)
لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته۔
مسائل بہشتی زیور(۱/۳۶۵)
اسی طرح ایک شخص نے زکوۃ کی رقم مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیےکسی کو دی،وکیل نےمثلا اس میں سے دس دس کے نوٹ لیے اور سو روپے کا نوٹ اس میں رکھ دیا اور بعد میں زکوۃ میں دےدیاتو زکوۃ ادا ہوگئی۔
مسائل بہشتی زیور(۱/۳۶۵)
اس طرح ایک شخص نے زکوہ کی رقم مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے کسی کو دی وکیل نے اس میں سے مثلا دس دس کے نوٹ لیے اور سو روپے کا نوٹ اس میں رکھ دیا اور بعد میں زکوۃ میں دےدیا تو زکوۃ ادا ہوگئی۔
احسن الفتاوی(۴/۳۰۰)
ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو زکوۃ یا دوسرے صدقات واجبہ کی مد سے کوئی رقم مساکین کو دینے کے لیے دی اس وکیل نے وہ رقم بدل دی مثلا اس میں سے دس دس روپیہ کے دس نوٹ لے لیے اور سو روپیہ کا نوٹ اس میں رکھ دیا کیا ایسا کرنا جائز ہے یا جو رقم ملی ہے وہ ہی مساکین کو دینا ضروری ہے؟
جواب: زکوۃ بہر حال ادا ہوجائے گی البتہ تبدیل کا جواز اس پر موقوف ہے کہ موکل کی طرف سے تبدیل کا اذن صراحۃ یا دلالۃ موجود ہو موجود عرف میں اس کی اجازت ہے اس لیے صراحۃ اذن کی ضرورت نہیں معہذا صراحۃ اجازت لے لینا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved