• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اگر گاہک باقی روپے وصول نہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

عموما د کانوں پر سیل لگائی  جاتی ہے تورعایتی قیمت 999کرکے لگائی  جاتی ہے، گاہک جب چیز خریدتا ہے تو 1000دیتا ہے اب اس صورت میں نہ توگاہک 1روپیہ واپس  مانگتا ہے اور نہ ہی دوکاندار واپس کرتاہے۔ معلوم یہ کرناہے کہ ایسے درست ہے؟  آیا وہ 1روپیہ شرعا واپس کرنا ضروری ہے یا عرف کی وجہ سے دوکاندار کے لیے واپس نہ کرنا مباح ہے؟اور اگر کافی عرصہ سے ایسی صورتحال سے گزر رہا ہوتو پھر اسکی تلافی کیسے کی جائے؟

وضاحت  مطلوب ہے: کیا یہ سوال دوکاندار کی طرف سے ہے  یا ملازم کی طرف سے ہے؟

جواب وضاحت: دونوں کے اعتبار سے جواب مطلوب ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں باقی روپے واپس  کرنے ضروری ہیں البتہ گاہک  واپس کرنے کے باوجود نہ لے تو ایسی صورت میں رکھ سکتے ہیں لیکن یہ پیسے ملازم(کیشیئر) کے نہیں ہوں گے بلکہ مالک کے ہوں گے  اور اگر کسی شخص نے کافی عرصے سے بقیہ روپے واپس نہیں کیے تو اس کو چاہیے کہ   جن لوگوں کے پیسے ہیں ان  کو ان کے روپے واپس کرےلیکن اگر   اس کو یاد نہیں کہ کن کن لوگوں کے پیسے ہیں تو اندازہ لگا کر اصل مالکوں کی طرف سے صدقہ کردے۔

توجیہ:گاہک کی طرف سے واپس کرنے کے باوجود  بقیہ روپے نہ لینا قیمت میں اضافہ ہے اور قیمت کا مستحق چونکہ  مالک  ہوتا ہے اس لیے قیمت میں ہونے والے اضافے کا مستحق بھی مالک ہی ہوگا ۔  کیشیئر کے لیے وہ رقم خود رکھنا جائز نہیں ہے اور اگر کسی ملازم(کیشیئر) نے کافی عرصے سے یہ رقم مالک کو ادا نہیں کی تو جتنی رقم اس نے اس طرح حاصل کی ہے اس کا اندازہ لگا کر مالک کو ادا کرے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گاہک کو ایک روپیہ واپس کرنا ضروری نہیں ہے اس لیے کہ اس  کی طرف سے دلالۃً ایک روپیہ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے اس لیے کہ کئی مرتبہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کو ایک روپیہ واپس کیا  جائے لیکن شرم کی وجہ سے تقاضا نہیں کرتے ،جس کی دلیل یہ ہے کہ  بہت سے لوگوں کو جب ایک روپیہ واپس کیا جائےتو وہ اس کو وصول کرنے سے انکار نہیں کرتے ،لہذا دکاندار(کیشئیر) کے لیے باقی ایک روپیہ واپس کرنا ضروری ہے اور اگر بقیہ رقم گاہک کو واپس نہ کی ہو تو اس صورت میں بھی وہ رقم گاہک کی ہی رہے گی اور  دکاندار یا کیشیئر کے لیے ضروری ہے کہ ان کو واپس کرے لیکن اگر معلوم نہ ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہے۔

بدائع الصنائع (4/519)میں ہے:

قال اصحابنا الثلاثة الزيادة في المبيع والثمن جائزة مبيعا و ثمنا كان العقد ورد على المزيد عليه والزيادة جميعا من الابتداء 

حاشیہ ابن عابدین (9/635) میں ہے:

لو مات الرجل و كسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة و لا يأخذون منه شيئاً و هو أولى بهم و يردونها على أربابها إن عرفوهم و إلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved