- فتوی نمبر: 24-382
- تاریخ: 24 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > لقطہ
استفتاء
مسئلہ یہ ہے کہ میرے پاس2پرندے ہیں کسی سے چھوٹ کر آئے ہیں مجھے نہیں معلوم کس کے ہیں؟ توکیا میں ان کو پال کر یا فروخت کر کے وہ پیسے استعمال کر سکتاہوں ؟ رہنمائی فرمائیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ پرندے آپ کے نہیں ہیں بلکہ اصل مالک کے ہیں، آپ کے پاس امانت ہیں لہٰذا آپ پہلے مالک کو معلوم کرنے کی ممکنہ کوشش کریں اگر مل جائے تو اسے واپس کریں اگر نہ ملے تو پھراس کو صدقہ کر دیں ۔ یاد رہے کہ بعد ازاں اگر مالک آگیا اور آپ سے مطالبہ کیا تو آپ کو قیمت دینی پڑے گی ۔
در المختارمع رد المحتار (4/ 279)میں ہے:
( فينتفع ) الرافع ( بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير
قال الشامی تحته: قوله ( فينتفع الرافع ) أي من رفعها من الأرض أي التقطها وأتى بالفاء فدل على أنه إنما ينتفع بها بعد الإشهاد والتعريف إلى أن غلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها.
مجمع الأنہر (2/ 528)میں ہے:
حمامة في المصر يعرف أن مثلها لا يكون وحشية فعليه أن يعرفها وفي التنوير محضنة حمام اختلط بها أهلي لغيره لا ينبغي له أن يأخذه وإن أخذه طلب صاحبه ليرده علي.
فتاویٰ محمودیہ (22/578)میں ہے:
سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین اس بارے میں کہ ایک کبوتر زید کے گھر میں باہر سے آ کر رہ گیا اور مدت تک رہا ،جس کو زید نے بھگایا مگر وہ اڑ کر پھر اس کے بالا خانہ میں رہنے لگا ،یہاں تک کہ زید بھگاتا رہا اور وہ اڑتا پھر آجاتا، اب اس کے دو چار بچے ہوچکے ہیں اور کبوتروں کا سلسلہ بڑھنے لگا ہے، زید کی عدم موجودگی میں بچوں نے چند کبوتر ذبح کرکے کھا لئے، کبوتر محلہ کے کسی ہندو کا ہے، تو اب کیا کیا جائے؟
الجواب : اگر وہ کبوتر جنگلی نہیں ،بلکہ پلا ہوا ہے اور معلوم ہے کہ فلاں شخص کا ہے تو اس کو واپس کردیں، پھر اگر وہ مادہ ہے تو اس کے بچے بھی اسی کے مالک کے ہوں گے، جو بچے ذبح کرکے کھائے ہیں ان کی قیمت مالک کو دیں اور جو بچے موجود ہیں وہ بھی مالک کو دیں یا اس سے خرید لیں، اگر وہ نر ہے تو صرف وہی مالک کو واپس کریں اور اس کی وجہ سے جو بچے ہوئے وہ اس کے نہیں ،نہ قیمت ادا کرنے کی ضرورت ہے، نہ واپس کرنے کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved