• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

استاد سے اگر مدرسہ کی موٹر سائیکل چوری ہوجائے تو ضمان استاد پر آئے گا یا نہیں؟

استفتاء

ایک استاد مدرسہ کے کام سے کہیں موٹر سائیکل لے کر جارہے تھے، راستے میں ڈاکو کھڑے تھے، استاد سے ڈاکو موٹر سائیکل چھین کر لےگئے۔آیا اب اس استاد سے اس موٹر سائیکل کے بدلے میں ایسی ہی موٹر سائیکل لی جائے گی یا مارکیٹ میں ایسی  موٹرسائیکل کی قیمت کے مطابق  قیمت لی جائے گی؟

وضاحت مطلوب ہے: (1) موٹر سائیکل کا مالک کون ہے؟(2) موٹر سائیکل والے کو مذکورہ استاد پر کتنا اعتماد ہے؟(3)مذکورہ استاد کہاں سے کہاں جارہے تھے؟وقت کیا تھا؟جانے کی مجبوری کتنی تھی؟اور اس وقت اس راستے پر لوگوں کے جانے کا معمول ہے یا نہیں؟(4)ڈاکو کتنے تھے اور ان کے پاس کیا ہتھیار تھے؟اور استاد نے ڈاکوؤں سے بچنے کی کوئی کوشش کی یا نہیں؟

جواب وضاحت: (1) موٹر سائیکل مدرسہ کی تھی،مہتمم صاحب نے مدرسے کے کام کاج کے لئے فنڈ سے خریدی تھی۔(2)پندرہ،سولہ سال پرانے استاد ہیں اور وہیں کے رہائشی ہیں،اعتماد والے ہیں اور مدرسے والوں کو ان کی بات پر پورا اطمینان ہے ۔ (3)عام شاہراہ سے جارہے تھے جہاں ٹریفک وغیرہ چلتی ہے،صبح تقریباً گیارہ بجے کا وقت تھا،بڑے سٹور سے مدرسے کے لئے راشن لینے جارہے تھے اس بڑے سٹور سے ہمیں راشن مل جاتا ہے پھر اس کا بل مخیر حضرات کے ذریعے ادا کیا جاتاہے۔(4)دو موٹر سائیکلوں پر چار آدمی آئے اور گن پوائنٹ پر موٹر سائیکل چھین کر لے گئے،جان کا خطرہ تھا اس لئے بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔

نوٹ:یہ سوال میں اپنے لئے شرعی حکم معلوم کرنے کے لئے پوچھ رہا ہوں،مدرسے والوں نے  اعتماد کی بنا پر مجھے معاف کردیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں شرعااستاد کے ذمہ موٹر سائیکل کا ضمان نہیں ہے۔

توجیہ:استاد کی حیثیت اجیر خاص کی بنتی  ہے اور اجیر خاص پر ضمان اس وقت آتا ہے جب اس کی طرف سے  تعدی یا لاپرواہی پائی جائے۔مذکورہ صورت میں استاد کی طرف سے کوئی لاپرواہی اور تعدی نہیں پائی گئی لہذا مذکورہ صورت میں استاد کے ذمہ موٹر سائیکل کا ضمان نہیں ہے۔

شرح مجلۃ (2/710) میں ہے:(المادة 607) (‌لو ‌تلف ‌المستأجر ‌فيه بتعدي الأجير أو تقصيره يضمن.)سواء کان الاجیر خاصا او مشترکاً ،وسواء کانت الإجارة صحيحة أو فاسدة؛ لأن المستأجر فيه أمانة في يد الأجير ،والامانة  تصیر مضمونة بالتعدی او التقصیر بالحفظ،وهو ظاهر۔دررالحکام فی شرح مجلۃالاحکام (1/ 703)میں ہے:«(المادة 607) ‌لو تلف المستأجر فيه بتعدي الأجير أو تقصيره يضمن.لضمان الأجير ثلاث قواعد:القاعدة الأولى – إذا تلف المستأجر فيه أو فقد بتعدي الأجير أي الأجير الخاص أو المشترك أو تقصيره في أمر المحافظة ضمن سواء أكانت الإجارة صحيحة أو فاسدة؛ لأن المستأجر فيه أمانة في يد الأجير ويكون مضمونا بالتعدي والتقصير»الفقہ الاسلامی وادلتہ(5/3847)میں ہے:«الأجير الخاص (وهو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعمل) كالخادم في المنزل والأجير في المحل، اتفق أئمة المذاهب وهم (الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة) على أنه لا يكون ضامنا العين التي تسلم إليه للعمل فيها؛ لأن يده يد أمانة كالوكيل والمضارب، كما إذا استأجر إنسان خياطا أو حدادا مدة يوم أو شهر ليعمل له وحده، فلا يضمن العين التي تهلك في يده، ما لم يحصل منه تعد أو تقصير في حفظه، سواء تلف الشيء في يده أو أثناء عمله.»المعاییر الشرعیہ(ص:458)معیار الاجارہ (4/5)میں ہے:‏الاجير الخاص لا ‏يضمن الهلاك إلا عند التعدي ‏أو التقصير أو مخالفة المشروط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved