• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’اگر تم نے فلاں آدمی سے بات کی تو تم مجھ پر طلاق ہو جاؤ گی‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’اگر تم نے فلاں آدمی سے بات کی تو تم مجھ پر طلاق ہو جاؤ گی‘‘ جبکہ میں نے بعد میں اپنی شرط واپس لے لی تھی  اس کے بعد میری بیوی نے اپنے کزن سے بات کر لی، لیکن اس  وقت اسے یاد نہیں تھا کہ میں نے شرط لگائی ہے اور شرط واپس بھی لے لی ہے، کیا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی ہے؟

شوہر کا حلفی بیان:

’’ میں نے اپنی بیوی پر شرط لگائی تھی کہ ’’اگر تم نے فلاں کزن سے بات کی تو تم مجھ پر طلاق ہو جاؤ گی‘‘  اس کے بعد میری بیوی نے اس آدمی سے بات کر لی، لیکن میں اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر حلفا یہ بیان دیتا ہوں کہ میری نیت صرف ڈرانے کی تھی طلاق کی نیت نہیں تھی‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

توجیہ:  مذکورہ صورت میں شوہر کا یہ کہنا کہ ’’اگر تم نے فلاں کزن سے بات کی تو تم مجھ پر طلاق ہو جاؤ گی‘‘    مستقبل کا جملہ ہے اور مستقبل کے جملے کی اگر بیوی کے فعل پر تعلیق کی جائے تو طلاق کا دارو مدار شوہر کی نیت پر ہوتا ہے اگر شوہر کی نیت نہ ہو اور وہ اس پر قسم بھی دیدے تو طلاق واقع نہیں ہوتی، مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر کی طلاق نیت نہیں تھی بلکہ تخویف (ڈرانے) کی نیت تھی اور اس پر وہ قسم بھی دے رہا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

عالمگیری (1/433) میں ہے:

إذا قال لامرأته في حالة الغضب: إن فعلت كذا إلى خمس سنين تصيري مطلقة مني وأراد بذلك تخويفها ففعلت ذلك الفعل قبل انقضاء المدة التي ذكرها فإنه يسأل الزوج هل كان حلف بطلاقها فإن أخبر أنه كان حلف يعمل بخبره ويحكم بوقوع الطلاق عليها وإن أخبر أنه لم يحلف به قبل قوله كذا في المحيط.

فتاوی بزازیہ (4/282) میں ہے:

إذا قال لها: إذا فعلت كذا إلى خمس سنين تصيري مطلقة مني وقصد تحذيرها ففعلت قبل انقضاء هذه المدة يسأل الزوج انه هل كان حلف بطلاقها ؟ إن أخبر بأنه كان حلف على طلاقها يعمل بخبره وإن أخبر أنه لم يحلف بالطلاق فالقول له مع اليمين.

امدادالاحکام (2/498) میں ہے:

سوال : معظم مکرم محترم بندہ حضرت مولانا محمد اشرف علی صاحب دامت برکاتہم، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ، یہ خاکسار بہ سرپرستی جناب دلدار خان صاحب کانپور میں ملازم ہے، ۔۔۔۔۔۔۔ میں آنگن میں بیٹھا غصہ میں کچھ باتیں فراز و نشیب کی بطور نصیحت کرتا رہا، اسی حالت میں یہ کہہ کر اٹھا کہ "اگر اس گھر میں جاؤ گی طلاق ہو جاوے گی اور متواتر اس کلمہ کو کہا اور دروازہ کھڑکی میں احتیاطا قفل لگا دیا کہ اس امر کا وقوع سہوا یا عمدا نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ یہ میری سرگزشت ہے دریافت طلب یہ امر ہے کہ ان الفاظوں کو جو میں نے غضبناک ہو کر کہے ہیں اور یہ نیت نہیں ہے کہ اگر ایسا ہو گا تو یہ ہوگا، بلکہ غصہ میں کہہ گیا کہ کسی شرعی حکم سے واپس لے سکتا ہوں؟۔۔۔الخ

الجواب: صورت مسئولہ میں سائل نے صیغہ مضارع کا استعمال کیا ہے جس سے طلاق کا وقوع اس وقت ہوتا ہے جبکہ مضارع کا استعمال بمعنی حال غالب ہوگیا ہو، اردو میں چونکہ حال و استقبال کا صیغہ جدا جدا ہے اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مضارع بمعنی حال غالب ہے، پس صورت مسئولہ میں سائل کا یہ قول کہ "آئندہ اگر اس گھر میں جاؤ گی طلاق ہو جاوے گی ” تعلیق طلاق نہیں بلکہ محض وعید اوردھمکی ہے جیسا کہ سائل کے بیان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ارادہ تعلیق کا نہ تھا۔ لہذا اگر زوجہ اس گھر میں چلی جاوے گی تو شرعاً طلاق عائد نہ ہو گی۔

قال فى العالمكيرية ” إذا قال لامرأته في حالة الغضب: إن فعلت كذا إلى خمس سنين تصيري مطلقة مني وأراد بذلك تخويفها ففعلت ذلك الفعل قبل انقضاء المدة التي ذكرها فإنه يسأل الزوج هل كان حلف بطلاقها فإن أخبر أنه كان حلف يعمل بخبره ويحكم بوقوع الطلاق عليها وإن أخبر أنه لم يحلف به قبل قوله كذا في المحيط.

لیکن اگر زوج کی نیت محض دھمکی کی نہ تھی بلکہ طلاق کو معلق کرنے ہی کی نیت تھی تو اس گھر میں جانے سے طلاق پڑ جائے گی لہذا سائل اپنی نیت کو خود سوچ سمجھ لے۔۔۔۔ الخ

امدادالاحکام (2/514) میں ہے:

سوال: اس کابین کے بارے میں "منکہ ناکح سید احمد ولد بخشا علی حاجی مرحوم ساکن یوپی شمالی ضلع اکیاب ہستم  …………….. و اگر خلاف ایں ورزم بر ماجدہ خاتون مذکورہ سہ طلاق واقع خواہد شد ایں چند کلمہ بطور کابین نامہ دادم تا عند الحاجت بکار آید” ایں کابین بالا مذکورہ کو ایک مولوی صاحب نے لکھا اور جس کے واسطے لکھا وہ بھی مولوی اور ناکح مولوی صاحب نے محظ دستخط کیا اور زبان سے اقرار نہیں کیا………………  اب عند وجود شرط طلاق، طلاق واقع ہو گی یا نہیں؟ اگر ہو گی پس اس کا کیا مطلب ہے؟

إن فعلت كذا إلى خمس سنين تصيري مطلقة ففعلت و قالو ان كان الرجل حلف بطلاقها، يقع الطلاق، و ان لم يكن حلف بطلاقها و قال ذلك على وجه التخويف لم يقع و يكون القول قول الزوج اني قلت ذلك على وجه التخويف كتبه في الخانيه.

الجواب: صورت مذکورہ میں مسماۃ ماجدہ خاتون پر تین طلاق واقع ہوگئی ہیں قضاءً لان المضارع فى القضاء بالشرطية غالب للانشاء فدعوى خلاف الظاهر فلا يقبله القاضى و لا المرأة لأنها كالقاضى لاتعلم الا الظاهر پس ماجدہ پر واجب ہے کہ اپنے کو مطلقۃ الثلاث سمجھے اور زوج سے علیحدہ ہو کر عدت تمام کر کے وہ دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے اور عبارت عالمگیریہ سے استدلال نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں تعلیق علی فعل المرأۃ ہے اور عورت کے فعل پر طلاق کو معلق کرنے میں تخویف کا احتمال بعید نہیں بلکہ دھمکانے کے طور پر کسی کام سے روکنے کے لئے ایسا کر دیا کرتے ہیں لہذا وہاں نیت زوج کا اعتبار ہے اور یہاں تعلیق علی فعل الزوج ہے اس میں تخویف وغیرہ کا احتمال نہیں لہذا نیت زوج معتبر نہیں لان لفظ الطلاق صريح۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved