- فتوی نمبر: 14-282
- تاریخ: 21 مارچ 2019
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے عدالت سے خلع لیا ہے کاغذات ساتھ منسلک ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا خلع کا یہ فیصلہ معتبر ہے؟ نکاح کی پوزیشن کیا ہے؟ عدت ہے یا نہیں؟اگر ہے تو کب سے ہے؟ دوران عدت کیا میں امتحانات کے پرچہ دینے کے لئے باہر جا سکتی ہوں؟
خلع لینے کی اصل وجوہات کیا تھیں؟ وجوہات درج ذیل ہیں ؟
1-شادی کے روز شوہر رات تک اپنے دوستوں کے ساتھ رہے میں ان کا انتظار کرتی رہی، آخرکار مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ چاہیے؟ اور حق مہر میں ملا سونے کا سیٹ مجھے پکڑا یااور جا کر سو گئے، رات کو اٹھےاورمیرے ساتھ اپنی حاجت پوری کی اور سو گئے ۔یہ تھی میرے شوہر سے شادی کے بعد میری پہلی ملاقات ۔دو سال جو میں ان کے ساتھ رہی اس میں آخر کے مہینوں میں بھی انہوں نے میرے پاس آنا تقریبا ختم کر دیا پھر آخری دو ماہ میں مجھ سےبالکل رجوع نہ کیا، 2-میں اور میری بڑی بہن یتیم تھے ،ہمارے شیخ کے علاوہ ہمارا کوئی سرپرست نہ تھا ،شادی کے شروع ہی سے میرے شوہر مجھ پر دباؤ ڈالتے کہ میں اپنی اکلوتی بہن تک سے نہ ملوں جو اسی گھر میں رہتی تھی وہ میری جیٹھانی بھی تھی۔ جب سسر نے وجہ پوچھی توشوہر کا جواب تھا، بس میں نہیں چاہتا، جس پر ان کے والد نے انہیں ڈانٹا کہ یہ غیر مناسب شرط ہے ،مگر وہ اس پر قائم رہے ۔
3-مجھ سے بیزار اور لاتعلق رہتے تھے ،ساری رات گھر سے باہر رہنا ان کا معمول تھا ،آتے تو اکثر والدین کے کمرے میں سو جاتے، وقت گزرتا گیا اور ان کا رویہ بد سے بدترین ہوتا گیا خود ڈیفنس میں رہائش پذیر ہوئے جہاں ان کی اور گھر والوں کی عیش و عشرت کی تمام اشیاء موجود تھیں، صرف مجھے ان سے محروم رکھا تھا،یہاں تک کہ میری بنیادی ضروریات جیسے دوائیں ،اور گرم کپڑے ،گرم پانی کے لئے بھی سسر، بہن ،بہنوئی سے درخواست کرنی پڑتی تھی نیز کوئی جیب خرچ نہ دیتے تھے۔ ان کے گھر کا خرچہ یوں چلتا تھا کہ میرے شوہر،نند، بہنوئی اپنی آمدنی میری ساس کو دے دیتے اور سسر کی پنشن کو ملا کر ساس گھر کی ضروریات پوری کرتیں، میں شادی سے پہلے اسکول میں پڑھاتی تھی، یوں میرے پاس کچھ رقم تھی، اس رقم سے اور بہن سے مانگ کر ذاتی ضروریات دو سال تک پوری ہوتی رہی ہیں، مزید اگلے دو سال سے میرے آبائی گھر میں بہنوئی خرچہ اٹھاتے ہیں ۔
واقعہ( جس میں آپ کے سوال نمبر3 کا جواب بھی موجود ہے )
وہ اولاد نہیں چاہتے تھے مگر پتہ چلا کہ الحمدللہ ہمارے ہاں خوشخبری آنے والی ہے، جنوری 2016 میں جب میں تین ماہ کی حاملہ تھیں تو انہوں نے مجھے اپنی والدہ کے سامنے کہا کہ بچہ گرا دو میں نہیں مانی اور بات جھگڑے میں تبدیل ہوگئی، انہوں نے اپنی والدہ کے سامنے زبانی اعتراف کیا کہ میں اسے مار کر سیدھا کرتا ہوں پھر مجھے دھکیلتے ہوئے کمرے تک لے کر گئے ،مجھے ہراساں کیا اور مجھے دیوار سے لگایا، مجھے مزید مارنے آ رہے تھے کہ میری بہن جو میری جیٹھانی ہے اس نے میری آواز سنی کہ میں فریاد کر رہی ہوں، بچانے آئی اور مجھے اپنے کمرے میں محفوظ کرلیا ،کیونکہ ساس مدد نہیں کر رہی تھی، ہم نے بہنوئی کو فون پر صورتحال بتائی وہ گھر آئے تاکہ ہمیں سسر کے پاس لے کر جا سکے۔ اس وقت میری بہن ،بہنوئی اورساس کی موجودگی میں میرے شوہر نے کہا ’’اگر تم ان کے ساتھ گئی تو میری طرف سے فارغ ہو‘‘۔
پھر ہم سسر کے پاس چلے گئے (مزیدوضاحت:میں فورا چلی گئی تھی،اگلی مرتبہ 2016میں دوسری بارکہا تھا اپنے والد کے سامنے میری طرف سے شادی سے فارغ ہے جس کے بعد میں اپنے میکے آگئی )
صلہ رحمی میں بڑوں کا کردار :
شوہر کے والد کو شروع سے اندازہ تھا کہ ان کے بیٹے کا رویہ میرے ساتھ کچھ ٹھیک نہ تھا مگر ان کے گھر میں مارپیٹ عام بات تھی ۔خود میرے سسر اب تک بیوی اور بیٹی پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، جوانی میں ایک مرتبہ اتنا مارا کہ میری ساس جو 9 ماہ کی حاملہ تھیں ان کی بیٹی کا پیدائش سے پہلے انتقال ہو گیا، میرے جیٹھ یعنی بہنوئی نے جب میری بہن سے شادی کے بعد ہماری شیخ سے بیعت کی اور شرعی حلیہ اختیار کیا تو اس بات پر میرے سسر نے ان کو بری طرح مار کر گھر سے باہر نکال دیا، جس کے بعد وہ اور میری بہن میرے آبائی گھر میں منتقل ہوگئے ،سسر صاحب کو جب شوہر کے رویے کے بارے میں آگاہ کیا تو انہوں نے میرے شوہر کو سمجھایا اور مجھے بظاہر یقین دلایا کہ اب یہ خود میں تبدیلی لائیں گے، میں اپنے شیخ سے رابطے میں رہی اور ان کے فرمان کے مطابق رشتہ نبھانے کی کوشش کرتی رہی۔
واقعہ نمبر2 جس میں سوال نمبر3 کی تفصیل درج ہے)
جب میں نو ماہ کی حاملہ تھی تو گھر میں پردے میں نارمل ڈیلیوری کروانا چاہ رہی تھی جس پر میرے شوہر کا ردعمل بہت سخت ہو گیا ،وہ اور سسر بڑا آپریشن کروانے پر مجبور کرنے لگے حالانکہ مجھے کوئی عذر نہیں تھا کہ آپریشن ہو، میں نے جب سسر سے کہا کہ میں اپنے آبائی گھر جاکر نارمل ڈیلیوری کروا کر چالیس دن کے بعد واپس آجاؤں گی، شوہر نے میرے سسر کے سامنے کہا کہ ٹھیک ہے ،!جاتی ہے پھر یہ میری طرف سے فارغ ہے شادی سے ‘میں نے الحمد للہ نار مل ڈیلیوری اپنے آبائی گھر میں کروائی ،جہاں میری بہن نے میرا خیال رکھا ،اس دوران شوہر نے مجھ سے تعلق نہ رکھا، بچے کی پیدائش کے بعد بھی کافی دیر اسے دیکھنے نہ آئے پھر جب چالیس دن کے بعد مجھے کوئی لینے نہ آیا تو میں اپنا بیٹا لے کر خود سسرال پہنچ گئی۔ شوہر نے کئی روز بچہ نہ دیکھا ،مجھے بار بار کہتے تھے تم یہاں کیوں آئی ہو؟ میں تو چاہتا بھی نہیں کہ تم یہاں رہو ،کسی کو اس گھر میں تمہاری ضرورت نہیں، پھر مجھے مارنے پیٹنے کی دھمکیاں دے کر خوفزدہ رکھتے ،میں اکیلی ڈرتی رہتی ،مجھے کہتے کہ چھتر مار مار کر ساروں کے سامنے تمہیں گھر سے باہر نکال دوں گا۔ آخر مجھے ایک روز کہا کہ سامان لے کر بہن کے گھر چلی جاؤ مجھے بیٹے کو لے کر آبائی گھر آنا پڑا اس کے بعد شوہر کے چچا کو صلح کے لیے شامل کیا، انہوں نے صورتحال شوہر کے سامنے سنی اور کہا کہ اس طرح تو کوئی عورت نہیں رہ سکتی ۔میرے شوہر نے میرا کچھ سامان باندھ دیا اور کہا کہ جاؤ یہ ساتھ لے جاؤ ۔
آبائی گھر سے میرے بہنوئی اپنے چچازاد بھائی اور ان کے والد اور اپنی خالہ زاد بہن کے شوہر سے رابطے میں رہےاور میری اور شوہر کی صلح کی کوشش کرتے رہے ۔اس سارے معاملے میں میری طرف سے ہمارے شیخ، میرے بہنوئی کی رہنمائی فرماتے رہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ شوہر نے میرے ساتھ ٹھیک نہیں کیا ۔ان کے بڑے پھوپھا نے سب کے سامنے کہا کہ اس کی ماں یعنی میری ساس نہ بڑے کو بسنے دے گی یعنی میرے جیٹھ اور نہ ہی اسے یعنی میرے شوہر (یہ پرانے تجربے کی بنا پر ان کا اندازہ تھا) میرے سسر نے بھی میرے شوہر سے پوچھا کہ تمہیں کیا مسئلہ ہے ؟تو انہوں نے کہا کہ کوئی نہیں۔ مگر نہ تو خود کو سدھارنے کی کوشش اور نہ ہی میرا رشتہ بچانے کی کوشش کی سسر نے یہ بھی کہا کہ میں یہاں رہ جاؤں اور وہ شوہر کو گھر سے نکال دیتے ہیں مگر یہ مجھے مناسب نہ لگا کہ شوہر کو اس کے گھر سے نکلوا کرمیں سسرال میں رہوں ،اس لئے اس پیشکش کو نامنظور کر دیا، آخر میں شوہر نے بڑوں کا بھی لحاظ چھوڑ دیا تھا ان کے چچا نے برملا اعتراف کیا کہ اب وہ یعنی میرے شوہر کسی کی نہیں سن رہے ہیں۔ اور یوں ان کی طرف سے بڑوں نے ہاتھ اٹھا لیے گواہ میرے بہنوئی ہیں۔ ہمارے مشائخ صلح کی کوشش کرتے رہے مگر جب میری ہمت جواب دے گئی تووکیل کے ساتھ مشورہ کیا اور تنسیخ نکاح کا کیس فائل کیا، شوہر نے اس پر مجھے فون پر میسج کیا کہ خلع کیوں مانگ رہی ہو؟ یا دوسری شادی کرنی ہے تو میں بھی طلاق نہیں دیتا ایسے ہی بیٹھی ر ہو،جہنم میں جاؤ۔
کیس فائل ہونے کے بعد میرے سسر نے بھی اورمیرے شوہر نے بھی میری بہن ،بہنوئی ( اپنے بیٹے) اور مجھے دھمکی آمیز میسج کیے اور ہراساں کیا تاکہ ہم کیس واپس لے لیں ۔
کس بنیاد پر خلع لیا؟ خلع اس بنیاد پر مانگی کہ شوہر کے رویے سےظاہر تھا کہ انہیں اس رشتے اور ہماری اولاد میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور انہوں نے کئی مرتبہ کہا تھا کہ میں ان کے گھر سے چلی جاو ں۔
موجودہ صورتحال:
کیس کی پیشیوں میں میرے شوہر غیرحاضر رہتے ہیں ۔ایک مرتبہ پچھلے سال عدالت آئے اور بیان دیا کہ شادی رکھنا چاہتے ہیں غالباً ان کے وکیل کا مشورہ ہوگا کیس الجھانے کے لئے ۔لیکن اس کے بعد مجھ سے کوئی رابطہ نہ کیا اور نہ ہی اگلی پیشی میں آئے۔ ان کے وکیل نے اس ماہ ہوئی پیشی میں مجھ سے حق مہر واپس مانگا۔ ساتھ نان نفقہ کی رقم نہ دینے کی نیت سے یہ ظاہر کیاکہ شوہر کی آمدنی کچھ خاص نہیں ہے اگر شوہر نے مجھے رکھنا ہوتا تو کیا اتنے مہینوں میں مجھ سے کوئی بات نہ کرتے اور کیا وہ حق مہر واپس مانگتے ؟
معذرت کہ خط بہت طویل ہو گیا، کچھ نازیبا الفاظ بھی لکھنے پڑے مگر میرا مقصد یہ تھا کہ ان کے گھر کا ماحول ان کی سوچ آپ پر ظاہر ہوسکے اس ماحول میں ایک یتیم لڑکی کتنی خوفزدہ رہتی ہو گی، ان سب باتوں کی تصدیق میرے بہنوئی یعنی جیٹھ سے کر سکتے ہیں وہ یہ خط آپ کے پاس لے کر آئے ہیں، آپ ان سے کھل کر سوال کر لیجیے ۔اللہ تعالی آپ کے مقامات بلند وبالا فرمائے ،دین کے لئے آپ کی کوششوں کو قبول و منظور فرمائے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جب خاوند نے پہلی دفعہ بیوی سے دوران جھگڑا یہ کہا کہ’’ اگر تم ان کے ساتھ گئی تو میری طرف سے فارغ ہو‘‘اور بیوی ان کے (بہنوئی کے) ساتھ اسی وقت چلی بھی گئی تو اس چلے جانے سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے پہلانکاح ختم ہوگیا تھا اور عدت بھی شروع ہو گئی تھی اور طلاق کے وقت بیوی حاملہ تھی اس لئے عدت بچے کی پیدائش پر ختم ہوگی ۔بعد کے واقعات میں استعمال کئے گئے الفاظ کنایہ بائن ہیں جنہیں پہلی کی خبر بنانا ممکن ہے، اس لیے ان سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہو گی،کیونکہ ان الفاظ سے واقع ہونے والی طلاق بھی بائن کنائی ہو گی اور بائن کنائی طلاق کو جب سابقہ بائن طلاق کی خبر بنانا ممکن ہو تو اس سے نئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔
خلاصہ یہ ہے مذکورہ صورت میں نکاح کالعدم ہوچکا ہے اور عدت بھی گزر گئی ہے ،عدت کے احکامات بھی ختم ہوگئے ہیں،لہذا عدالتی فیصلہ سے نہ کوئی طلاق ہوئی اور نہ اس کی عدت گزارنے کی ضرورت ہے
© Copyright 2024, All Rights Reserved
