- فتوی نمبر: 30-251
- تاریخ: 25 نومبر 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > منتقل شدہ فی عبادات
استفتاء
چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پر مسافر امام کے سلام کے بعد مقیم مقتدی حضرات بقیہ رکعتوں میں لاحق، بحکم مقتدی ہوتے ہیں اس لیے وہ بحالت قیام قراء ت نہیں کریں گے ۔
واللاحق من فاتته الرکعات کلها أو بعضها لکن بعد اقتدائه بعذر ک…… مقیم ائتم بمسافر ……، وحکمه کمؤتم فلا یأتي بقرائة ولا سهو الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الامامۃ، ۲: ۳۴۴، ۳۴۵، ط: مکتبہ زکریا دیوبند)،
قوله:”ومقیم الخ“:فهو لا حق بالنظر للأخیرتین الخ (رد المحتار)، فإذا قام المقیم إلی الإتمام لا یقرأ ولا یسجد للسهو فی الأصح؛لأنه کاللاحق (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۶۱۱، ط: مکتبہ زکریا دیوبند)
حضرت مفتی صاحب اس مسئلہ میں قراءة فاتحہ کے ہر رکعت میں فرض ماننے والے اور غیر مقلدین اکٹھے احناف پر میزائل برساتے ہیں کہ آگے امام بھی نہیں اورمقتدی منفرد بھی نہیں کہ غلطی سے سجدہ سہو لازم ہوجائے کسی حدیث شریف کا حوالہ اگر بھیج دیں جس سے یہ مسئلہ مستنبط ہو ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر مقتدی کو لاحق نہ بھی مانیں تب بھی حنفیہ کے نزدیک اس پر فرض نمازوں کی آخری دو رکعتوں میں سورت فاتحہ کی قراءت فرض یا واجب نہیں کیونکہ حنفیہ کی تحقیق میں فرض نمازوں کی آخری دو رکعتوں میں نمازی پر قراءت یا سورت فاتحہ فرض یا واجب نہیں خواہ یہ نمازی منفرد ہو یا امام ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ وہ فرض نمازوں کی آخری دو رکعات میں قراءت نہیں کرتے تھے جیساکہ مصنف عبدالرزاق میں ہے۔
مصنف عبدالرزاق (2/189) میں ہے:
عبدالرزاق عن معمر عن الزهري عن عبيد الله بن أبي رافع، قال: كان علي يقرأ في الأوليين من الظهر والعصر بأم القرآن وسورة، ولا يقرأ في الأخريين.
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابورافع سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ ظہر اور عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور سورت کی قراءت کیا کرتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں قراءت نہیں کرتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ (3/ 266 )میں ہے:
عن علي وعبد الله، أنهما قالا: «اقرأ في الأوليين، وسبح في الأخريين.
ترجمہ: حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ (فرض کی) پہلی دو رکعتوں میں قراءت کیا کرو اور آخری دو رکعتوں میں تسبیح پڑھا کرو۔
ہدایہ(1/81)میں ہے:
وإن صلى المسافر بالمقيمين ركعتين سلم وأتم المقيمون صلاتهم ” لأن المقتدي التزم الموافقة في الركعتين فينفرد في الباقي كالمسبوق إلا أنه لا يقرأ في الأصح لأنه مقتد تحريمة لا فعلا والفرض صار مؤدى فيتركها احتياطا بخلاف المسبوق لأنه أدرك قراءة نافلة فلم يتأد الفرض فكان الإتيان أولى.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved