- فتوی نمبر: 29-317
- تاریخ: 28 ستمبر 2023
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ آج کل اے آئی(AI) یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس سافٹ وئیر آیا ہوا ہے،وہ سافٹ وئیر بہت زیادہ سوجھ بوجھ رکھتا ہے،وہ ہمارے کمانڈ دینے پر کسی موضوع پر مضمون لکھ سکتا ہے، ہمارے کہنے پر عجیب و غریب تصاویر بنا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ سافٹ وئیر کے ذریعے سے تصویر بنوانا بھی جائز نہیں۔
توجیہ: (1)ہماری تحقیق کے مطابق ڈیجیٹل تصویر بنانا بھی تصویر بنانا ہے عکس نہیں ہے ۔
(2)مذکورہ سافٹ وئیر فاعلِ مختار نہیں ہےکہ اس کی طرف نسبت ہو سکے بلکہ وہ صرف ایک آلہ ہے، لہٰذا جب آلہ کو حکم دینے والا/چلانے والا موجود ہے تو اس آلہ کے فعل (تصویر سازی) کی نسبت اس شخص کی طرف ہو گی جو اس کو کنٹرول کر رہا ہے۔ لہٰذا اس سافٹ وئیر کے ذریعے کسی جاندار کی تصویر بنوانا اپنے ہاتھ سے تصویر بنانے کی طرح ہے اور ناجائز ہے۔
مجمع الانہر(4/372) میں ہے:
(يضمن الراكب) أي في طريق العامة وإنما قيد به لأنه لو كان ملكه لا يضمن شيئا لأنه غير متعد بخلاف ما إذا كان في طريق العامة فيضمن للتعدي (ما وطئت دابته أو أصابت بيدها أو رجلها أو رأسها أو كدمت أو خبطت برجلها أو صدمت) والأصل في هذا أن المرور في طريق المسلمين مباح مقيد بشرط السلامة بمنزلة المشي لأن الحق في الطريق مشترك بين الناس فهو يتصرف في حقه من وجه وفي حق غيره من وجه فالجناية مقيدة بشرط السلامة وإنما تقيد بشرط السلامة فيما يمكن التحرز عنه دون ما لا يمكن التحرز عنه لأنا لو شرطنا عليه السلامة عما لا يمكن التحرز عنه يتعذر عليه استيفاء حقه لأنه يمتنع عن المشي والسير مخافة أن يبتلى بما لا يمكن أن يتحرز عنه والتحرز عن الوطء والإصابة باليد أو الرجل والكدم وهو العض بمقدم الأسنان أو الخبط وهو الضرب باليد أو الصدم وهو الضرب بنفس الدابة وما أشبه ذلك في وسع الراكب إذا أمعن النظر في ذلك وأما ما لا يمكن التحرز عنه فهو ما ذكره بقوله (لا ما نفحت برجلها أو ذنبها)
شرح المجلة للأتاسی(1/290)میں ہے:
المباشر هو الذي حصل التلف مثلا بفعله بلا واسطة فكان هو صاحب العلة يضاف إليه التلف والمتسبب ما حصل التلف لا بمباشرته وفعله بل بواسطة هي العلة لحصول المعلول وهي فعل فاعل مختار…….. واعلم أنه متى كان المتوسط بين السبب والمعلول صالحا لإضافة المعلول إليه يكون السبب حينئذ سببا حقيقيا أى محضا بمعنى أنه لا مزية له سوى الإفضاء إلى حصوله ، وعرفوه بأنه ما توسط بينه وبين الحكم علة وذلك المتوسط هو العلة ، وهذا هو المبحوث عنه فى القاعدة، و متى كان المتوسط غير صالح لذلك فالحكم يضاف إلى السبب، ويكون حينئذ في معنى العلة.
فقہی مقالات (6/57) میں ہے:
قانون یہ ہے کہ گاڑی چلانے کے دوران جو کوئی حادثہ اس گاڑی سےپیش آئے ، اس گاڑی کا ڈرائیور اس حادثے کا ذمہ دار ہے، اس لئے کہ گاری اس ڈرائیور کے ہاتھ میں محض ایک آلہ ہے ، اور وہ ڈرائیور اس کو کنٹرول کرنے پر قادر ہے لہٰذا اس گاڑی سے جو حادثہ پیش آئے گا ڈرائیور اس کا ذمہ دار ہو گا۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ گاڑی اور جانور میں ایک بڑا فرق بھی ہے ،وہ یہ ہے کہ جانور بذاتِ خود بھی حرکت کر سکتا ہےبخلاف گاڑی کے کہ وہ ڈرائیور کی حرکت دیے بغیر خود بخود حرکت نہیں کر سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved