• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک مجلس میں تین مرتبہ ’’ میں نے تجھے طلاق دی‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنی حاملہ  بیوی سے کہے کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی، تو میرے تن پر حرام ہے‘‘ تو اس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ اور صلح ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس بات کو دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ

سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟

جواب وضاحت:

یہ میرے دوست (یونس) کے بھائی (عاقب) کا مسئلہ ہے۔

عاقب (شوہر) کا بیان:

میں نے ایک ہی مجلس میں تین مرتبہ اپنی بیوی سے کہا  تھا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی‘‘ کیا اب صلح ہو سکتی ہے؟ رابطہ کنندہ: (محمد سلیمان)

سائل کا رابطہ نمبر:

عاقب (شوہر) کا رابطہ نمبر:

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے بیان کے مطابق تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

درمختار مع ردالمحتار (4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved