• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اجیر کا کسی اور سے کام کروانا

استفتاء

(۱)میں ایک  گھر میں بچوں کو قرآن پاک ناظرہ پڑھانے جایا کرتا تھا ،لیکن اب میں وہاں خود نہیں جاتا بلکہ اپنے شاگرد کو وہاں پڑھانے بھیجتا ہوں، بچے کے گھر والے مجھے دو ہزار فیس دیتے ہیں جس میں سے ایک ہزار میں رکھتا ہوں اور ایک ہزار اپنے شاگرد کو دیتا ہوں۔جس جگہ پڑھانے جاتا ہوں ان کو شاگرد کے پڑھانے پر  کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے ؟

(۲)اسی طرح ایک مولوی صاحب ایک جگہ جمعہ پڑھاتے  تھے لیکن اب وہ خود وہاں جمعہ پڑھانے نہیں جاتے بلکہ اپنے نائب کو بھیجتے ہیں اور جب  ان کو پانچ ہزار تنخواہ ملتی ہے تو وہ اس میں سے ایک ہزار نائب کو دیتے ہیں اور باقی چار ہزار خود رکھتے ہیں،    تو اس کا کیا حکم ہے ؟

تنقیح: دونوں صورتوں میں اصل مستاجر یعنی پہلی صورت  میں بچے کے سرپرست اور دوسرے مسئلے میں مسجد انتظامیہ کو اس بات  پر  اعتراض نہیں ہے کہ قاری صاحب یا مولوی صاحب اپنی جگہ کسی اور کو کیوں بھیج رہے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(۱،۲) مذکورہ  دونوں صورتیں جائز ہیں اس لیے کہ بچے کے سرپرست اور مسجد انتظامیہ اس بات پر اصرار نہیں کررہے کہ قاری صاحب یا خطیب بذاتِ خود آئیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت  کی حقیقت یہ ہے کہ  پہلی صورت میں طالبعلم   کا سرپرست  اور دوسری صورت میں مسجد انتظامیہ مستاجر ہے، ابتداء میں پڑھانے والے استاذ صاحب  ا ور خطیب صاحب اجیرِ اول ہیں اور جن کو انہوں نے بعد میں  سبق یا جمعہ پڑھانے کے لیے بھیجا ہے وہ اجیرِ اول کے اجیر ہیں، شرعی لحاظ سے  اگر مستاجر اس بات پر اصرار نہ کرے کہ  میرا کام اجیرِ اول ہی کرے گا تو اجیر کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی اور سے کام لے ،مذکورہ صورت میں چونکہ مستاجر اس بات کا اصرار نہیں کررہا لہٰذا شرعی لحاظ سے  سوال میں مذکور دونوں صورتیں جائز ہیں۔

مجمع الضمانات( ص45) میں ہے:

وَلِلْأَجِيرِ ‌أَنْ ‌يَعْمَلَ بِنَفْسِهِ وَبِغَيْرِهِ إلَّا إذَا شُرِطَ بِنَفْسِهِ

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (4/ 208)میں ہے:

وللأجير ‌أن ‌يعمل بنفسه وأجرائه إذا لم يشترط عليه في العقد أن يعمل بيده؛ لأن العقد وقع على العمل، والإنسان قد يعمل بنفسه وقد يعمل بغيره؛ ولأن عمل أجرائه يقع له فيصير كأنه عمل بنفسه، إلا إذا شرط عليه عمله بنفسه؛ لأن العقد وقع على عمل من شخص معين، والتعيين مفيد؛ لأن العمال متفاوتون في العمل فيتعين فلا يجوز تسليمها من شخص آخر من غير رضا المستأجر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved