- فتوی نمبر: 6-364
- تاریخ: 04 فروری 2014
استفتاء
دورِ حاضر میں جتنے اخبارات و رسائل کی اشاعت ہو رہی ہے ان کے سر ورق قرآنی آیات کا ترجمہ لکھا ہوتا ہے، اور اندرونی صفحات پر احادیث مبارکہ اور اسلامی، سیاسی اشتہارات بھی ہوتے ہیں جن میں قرآنی آیات، حدیث مبارکہ، اللہ تعالیٰ کا نام اور حروف معظمہ لکھے ہوتے ہیں، ان اخبارات و رسائل کو عام استعمال میں لا کر کچردان نظر کر دیا جاتا ہے ان اخبارات و رسائل کے صفحات گلی محلوں میں نالیوں، کچر دانوں کے ڈھیروں میں عام دکھائی دیتے ہیں، کیا ان اخبارات و رسائل کو استعمال میں لا کر کچردان کی نظر کر دینا درست ہے؟ یا ان کا ہر طرح کا استعمال جائز ہے مثلاً گھروں، گاڑیوں وغیرہ کو رنگ کرنے کے لیے ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ گھروں، دفتروں تقریباً ہر وہ جگہ جہاں شیشہ جات ہیں ان کو صاف کرنے کے لیے ان اخبارات و رسائل کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہوٹلوں پر کھانوں، منڈیوں، باغات تقریباً ہر جگہ ان کو استعمال میں لایا جاتا ہے اگر کسی سے کہا جائے کہ ان اخبارات و رسائل کو عام استعمال میں نہ لائے تو عموماً یہ کہا جاتا ہے اخبارات و رسائل کے اشاعت کرنے والوں کی غلطی ہے جو ان میں یہ آیات، احادیث، اللہ تعالیٰ کا نام اور حروف معظمہ لکھتے ہیں، کیا ان کا یہ کہنا درست ہے یا جو یہ بے حرمتی کرتے ہیں ان اخبارات و رسائل کو عام استعمال میں لا کر وہ غلط ہے؟ مزید یہ کہ بعض حضرات ایسے بھی ہیں جو ان سے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کاٹ لیتے ہیں اور ان کو عام استعمال میں لاتے ہیں ان سے کہا جاتا ہے کہ ان احادیث و رسائل میں ان قرآن آیات اور احادیث مبارکہ کہ علاوہ وہ جگہ جگہ حروف معظمہ لکھے ہیں، لیکن وہ اس بات پر دھیان نہیں کرتے یعنی ان حروف معظمہ کو مکمل طور پر ان اخبارات و رسائل سے کاٹ لیا جائے تو یہ عام استعمال کے قابل نہیں رہتے کیونکہ یہ بہت زیادہ مقامات پر لکھے ہوتے ہیں کیا ان حضرات کی یہ ذہنی اختراع درست ہے؟
مختصر یہ کہ ہر قسم کے انگریزی، اردو اخبارات و رسائل نصابی کتب، کاپیاں جن میں قرآنی آیات، احادیث مبارکہ، حروف معظمہ لکھے ہوتے ہیں ان کا عام استعمال جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ جس کاغذ پر قرآنی آیت ہو یا حدیث مبارک ہو یا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولوں یا فرشتوں کا نام ہو یا دینی مضمون ہو، ایسے کاغذ کو کچرہ دان میں ڈالنا یا کسی جگہ میں ڈالنا یا کسی عام استعمال میں لانا مثلاً ہاتھ پونچھنا، شیشے کی صفائی کرنا، روٹیاں لپیٹنا وغیرہ جائز نہیں۔
2۔ اور جس کاغذ پر مذکور بالا باتیں تو لکھی ہوئی نہ ہوں لیکن ان پر عام دنیوی باتیں لکھی ہوئی ہوں تو ایسے کاغذ کو بھی کسی نجس جگہ میں ڈالنا یا ایسے کاغذ سے نجاست صاف کرنا جائز نہیں۔البتہ ایسے کاغذ کا عام استعمال مثلاً کاغذ سے ہاتھ پونچھنا، شیشے صاف کرنا، سامان کی تھیلیاں بنانا، سامان کے ڈبے بنانا، روٹیاں لپیٹنا وغیرہ تو احتیاط تو یہی ہے کہ ایسے استعمال سے بھی بچا جائے، لیکن اگر کہیں مجبوری ہو تو ایسے استعمال کی گنجائش ہے۔
3۔ جو کاغذ ایسا ہو کہ صاف ستھرا ہو اور اس پر لکھنے کا کام لیا جا سکتا ہو خواہ ایک طرف سے ہو اس کو جمع کر لیں اور اس کا مفید اور بہتر استعمال کریں۔
تنبیہ: یاد رہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے ناموں سے متعلق مذکورہ حکم اس وقت ہے جب کسی نبی کا نام اسی نبی علیہ السلام کے نام کے طور پر لکھا گیا ہو اور اس نام سے اس نبی ہی کی ذات مراد ہو، لیکن جب یہ نام عام آدمی کے نام کے طور پر لکھا گیا ہو اور اس سے مراد عام آدمی کی ذات ہی ہو جیسے محمد علی، محمد رفیق، شعیب احمد وغیرہ تو اس وقت ان کا حکم وہی ہے جو عام دنیوی تحریر والے کاغذ کا ہے، البتہ وہ نام جن میں اللہ تعالیٰ کا نام بطور جزء کے استعمال ہو جیسے عبد اللہ، ضیاء الرحمٰن وغیرہ تو ان میں احتیاط ہونی چاہیے، یعنی یہ نام اگر جعلی حروف میں لکھے ہوئے ہوں یا عام سائز میں ہوں اور سامنے آ جائیں تو ایسے ناموں کو کاٹ لینے یا مٹا دینے یا اس پر سیاہ مار کر پھیرنے کے بعد وہ کاغذ استعمال کر سکتے ہیں۔ اور اگر سر سری نظر ڈالنے پر کوئی ایسا نام نظر نہ آئے تو ویسے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر ردی والے کے ہاتھ فروخت کریں تو کسی تبدیلی کے بغیر فروخت کر سکتے ہیں۔
1۔ بساط أو غيره كتب عليه "الملك لله” يكره بسطه و استعماله إلا إذا غلق للزينة ينبغي أن لا يكره و ينبغي أن لا يكره كلام الناس مطلقاً و قيل يكره حتی الحروف المفردة …… لكن الأول أحسن و أوسع. (البحر الرائق: 1/ 351)
- و لا يجوز لف شئ في كاغذ فيه مكتوب من الفقه و في الكلام الأولی أن لا يفعل و في كتب الطب يجوز و لو كان فيه اسم الله تعالی أو اسم النبي ﷺ يجوز محوه ليلف فيه شئ. (هندية: 5/ 322)
© Copyright 2024, All Rights Reserved