- فتوی نمبر: 1-11
- تاریخ: 18 مئی 2004
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
حلفیہ بیان
گذارش ہے کہ میں زید اپنا مسئلہ بیان کر رہا ہوں۔ میرا اپنی بیوی****سے جمعرات**** کی درمیان رات کو تائی وجیہ سے جھگڑا ہوگیا تھا۔ جھگڑے کی وجہ سے میں نے اس کو اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر ایک طلاق دی۔ اور دوبارہ وضاحت کے لیے میں نے” اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر تم کو ایک طلاق دیدی ہے اور دو باقی رہ گئیں ہیں”۔ برائے مہربانی ان الفاظوں کی روشنی میں اس بات کی وضاحت کر دیں یہ ایک ہی طلاق ہے یا دو ہو گئیں ہیں؟
طلاق کے الفاظ:
” میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر تم کو ایک طلاق دی”۔( وضاحت کے لیے) “میں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر تم کو ایک طلاق دیدی ہے اور دو باقی رہ گئی ہیں”۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
صورت مسئولہ میں ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ خاوند کے بیان کے مطابق اس کے دوسرے جملے” میں نے اللہ کو حاظر ناظر جان کر ایک طلاق دیدی ہے اور دو باقی رہ گئی ہیں” کو اخبار عن الاول پر محمول کیا جائے گا۔ اور عورت کے بیان میں دوسرے اور تیسری مرتبہ کے تکرار میں تاکید ہی مراد لی جاسکتی ہے، تاسیس مراد لینا مشکل ہے۔
وضاحت: کیونکہ عورت کے بیان میں پہلی اور پہلی سے مراد اول الثلاث ہی لیا جاسکتا ہے، اول ما بقی نہیں۔ خاوند اور بیوی دونوں کے بیان میں دو طلاقوں کے باقی رہ جانے کا اقرار بھی اس کا قوی قرینہ ہے۔ اور عقلاً بھی اول ما بقی تیسری مرتبہ میں مراد نہیں لیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ اول ما بقی مراد لینے میں تیسری مرتبہ میں ایک طلاق بچ جائے گی تو تیسری مرتبہ میں اول ما بقی مراد لینا محال ہوا تو دوسری مرتبہ کے الفاظ بھی وہی ہیں اس لیے اول الثلاث ہی مراد بن کر متعین ہو جائے گا۔
و في البزازية: طلقها ثم قال طلقتك أو قال طلاق دادم ترا يقع أخرى و لو قال طلاق داده أم أو كنت طلقتك لا يقع أخرى لأنه إخبار. ( بزازیہ حاشیہ عالمگیریہ: 4/ 180) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved