- فتوی نمبر: 22-239
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > قرض و ادھار
استفتاء
1۔ایک ادارہ بلاسود قرضہ دینے کا کہہ رہا ہے جب میں گئی معلومات لینے کےلیے تومجھے کہاکہ پانچ لاکھ قرض ملے گا اورچھ لاکھ واپس کرناہوں گے۔وہ کہتے ہیں کہ تقی عثمانی صاحب نے فتوی دیاہے کہ یہ سود نہیں ہے۔رہنمائی فرمائیں
وضاحت مطلوب ہے(۱)اس ادارہ کا نام کیا ہے؟(۲)مفتی تقی عثمانی صاحب کے فتوے کی کاپی مہیا کریں
جواب وضاحت(۱)اخوت(۲)ادارے والے وہ فتوی نہیں دے رہے کہہ رہے ہیں کہ یہ مشارکہ ہے جو اسلامی بینکنگ بھی اس طرح کام کررہے ہیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ قرضہ سودی ہے ۔مفتی تقی عثمانی مدظلہ کے ادارے کا فتوی بھی اس کےسود ہونے کاہے جو ساتھ منسلک ہے۔
نوٹ: اس ادارہ کے بارے میں پہلے ہمارے دار الافتاء سے قرض لینے کے جائز ہونے کافتویٰ جار ی ہوا تھا لیکن اس وقت جو شرائط ان کی قرض دینے کے بارے میں تھیں، اب وہ شرائط نہیں ہیں بلکہ ان میں فرق ہے اس لیے موجودیہ معلومات کے مطابق ان سے قرض لینا جائز نہیں۔ اسی طرح مفتی تقی عثمانی مدظلہ العالی کے ادارے سے بھی پہلے اس ادارے سے قرض لینے کے جائز ہونے کا فتویٰ جاری ہوا تھا مگر اب ان کا فتویٰ بھی ناجائز ہونے کا ہے۔
فقہ البیوع(2/1115)
ولکن الذي يظهر ان هذه الفکرة انما يوخذ اذا لم يود الي الربوا والا فللمقرض ان يقول: ليس علي الاقراض اما کتابة وثيقة القرض و الاعمال الادارية لاجراٌ القرض فليس مما اتبرع به فآخذ اجرة الکتابة و الاعمال الادارية مرتبطة بمبلغ القرض و فساد هذالقول ظاهر فلايجوز ربط اجرة کتابة وثيقة القرض قياسا علي اجرة الحکاک و ثقاب لانه يستلزم ربوا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved