• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

الفاظ کا صحیح تلفظ نہ کرنے والے کی امامت کا حکم

استفتاء

زید کی تجوید اتنی اچھی نہیں۔ اسے کبھی کبھی امامت کروانا پڑتی ہے۔ تو وہ ’’الحمد لله رب العالمين‘‘ کی جگہ ’’الهمد لله‘‘ پڑھ دیتا ہے۔ کیا نماز جائز ہو جاتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے والا شخص موجود ہوتو زید کو چاہیے کہ وہ امام نہ بنے۔ تاہم اگر زید پھر بھی امامت کرواتا ہے اور صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے والا شخص اسے ہٹانے پر قادر بھی نہیں، اور ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی مجبوری بھی ہے تو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے والے کی نماز زید کے اقتداء میں درست ہو گی۔ البتہ زید خود گنہگار ہو گا۔

في فتاوى قاضي خان على هامش الفتاوى الهندية (1/ 141، 140، 139):

و إن ذكر حرفاً مكان حرف و غير المعنى فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ ”الطالحات“ مكان ”الصالحات“ تفسد صلاته عند الكل و إن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة ك”الظاء“ مع ”الضاد“ و ”الصاد“ مع ”السين“ و ”الطاء“ مع ”التاء“ اختلف المشايخ فيه، قال أكثرهم لا تفسد صلاته.

و في الحلبي الكبير (481):

(و ذكر في الملتقط أنه لو قرأ في الصلاة الحمد لله بالهاء مكان الحاء أو قرأ كل هو الله أحد) بالكاف مكان القاف (و) الحال أنه (لا يقدر على غيره) كما في الأتراك و نحوهم (تجوز صلاته) و لا تفسد.

و في رد المحتار (2/ 477):

و في خزانة الأكمل قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، و إن جرى على لسانه أو لا يعرف التميز لا تفسد، و هو المختار (حلية) و في البزازية: و هو أعدل الأقاويل و هو المختار اھ و في التاترخانية عن الحاوي: حكي عن الصفار أنه كان يقول الخطأ إذا دخل في الحروف لا يفسد لأنه فيه بلوى عامة الناس، لأنهم لا يقيمون الحروف إلا بمشقة اھ

رد المحتار على الدر (2/ 396-395)

قال في الدر المختار: (و) لا (غير الألثغ به) أي بالألثغ (على الأصح) كما في البحر عن المجتبى، و حرر الحلبي و ابن الشحنة أنه بعد بذل جهده دائماً حتماً كالأمي، فلا يؤم إلا مثله، و لا تصح صلاته إذا أمكنه الاقتداء بمن يحسنه أو ترك جهده أو وجده قدر الفرض مما لا لثغ فيه، هذا هو الصحيح المختار في حكم الألثغ.

و قال في الشامية: (على الأصح) أي خلافاً لما في الخلاصة عن الفضلي من أنها جائزة لأن ما يقوله صار لغة له، و مثله في التاتارخانية، و في الظهيرية: و إمامة ألثغ لغيره تجوز، و قيل لا و نحوه في الخانية عن الفضلي. و ظاهره اعتمادهم الصحة، كذا اعتمدها صاحب الحلية، قال: لما أطلقه غير واحد من المشائخ من أنه ينبغي له أن لا يؤم غيره، و لما في خزانة الأكمل: تكره إمامة الفأفاء اھ و لكن الأحوط عدم الصحة كما مشى عليه المصنف و نظمه في منظومته تحمة الأقران و أفتى به الخير الرملي.

و في خلاصةالفتاوى (1/ 148):

و إمامة الألثغ لغيره ذكر الإمام الفضلي أنه يجوز لأن ما يقول صار لغة له، و قال غيره لا تصح.

و في التاترخانية (1/ 350):

و مما يتصل بهذا الفصل: الألثغ …. و المختار للفتوى في جنس هذه المسائل أن هذا الرجل إن كان يجتهد آناء الليل و أطراف النهار في تصحيح هذه الحروف و لا يقدر على تصحيحها فصلاته جائزة، و إن ترك جهده فصلاته فاسدة، و إن ترك جهده في بعض عمره لا يسعه أن يترك في باقي عمره، و لو ترك تفسد صلاته قال صاحب الذخيرة: و إنه مشكل عندي لأن ما كان خلقة فالعبد لا يقدر على تغيره.

و فيه أيضاً (1/ 442):

و الألثغ إذا أم غير الألثغ ذكر الشيخ محمد بن الفضل أنه يجوز و قال غيره لا تجوز إمامته.

امداد الاحکام (1/ 572) میں ہے:

’’(2)الثغ صرف وہی نہیں جس میں صحیح پڑھنے کی اہلیت ہی نہ ہو۔ کیونکہ حلبی و ابن شحنہ نے اس پر بذل جہد واجب کیا ہے اور وجوب جہد فرع ہے قدرت کی۔ پس الثغ سے مراد وہ الثغ ہے جو اس حالت موجودہ میں صحیح پڑھنے پر قادر نہیں۔ (3) جو شخص الثغ نہ ہو لیکن اس وقت کسی حرف کے صحیح تلفظ پر قادر نہ ہو وہ بھی بحکم الثغ ہے، پس ہر چند کہ صحیح مختار قول یہ ہے کہ الثغ کی امامت غیر الثغ کے لیے درست نہیں، اور اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ صحیح خوان کی اقتداء ایسے شخص کے پیچھے جائز نہ ہو جو حروف کو صحیح ادا نہیں کرتا، مگر اس وقت ضرورت کی وجہ سے امام فضلی کے قول پر فتویٰ دینے کو جی چاہتا ہے، خصوصاً حرف ضاد کے مسئلہ میں کیونکہ عام طور پر قرّاء تک اس کو غلط پڑھتے ہیں۔ لہذا قاری کی اقتداء کرنا غیر قاری کے پیچھے صحیح ہے ۔۔۔۔۔‘‘

حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے  مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے اس جواب کی تصویب بھی فرمائی ہے۔

خیر الفتاویٰ (2/ 329) میں ہے:

’’روایات بالا سے معلوم ہوا کہ جو غلطیاں سوال میں ذکر کی گئی ہیں، ان غلطیوں سے عند المتاخرین نماز فاسد نہیں ہوتی۔ پس اگر کوئی صحیح پڑھنے والا شخص مذکور فی السوال غلطیوں کے ساتھ پڑھنے والے امام کی اقتداء میں نماز پڑھے گا تو اس کی نماز ہو جائے گی۔ اس نماز کا اعادہ ضروری نہیں اور نہ صحیح پڑھنے والے شخص کو ترک جماعت کر کے علیحدہ نماز پڑھنی چاہیے۔‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved