• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

الفتح لیزنگ کے کاروبار کی شرائط کی شرعی حیثیت

استفتاء

معزز مفتیان کرام! میں الفتح لیزنگ کے نام سے ***مارکیٹ میں اقساط کا کام کرتا ہوں۔ میں جن شرائط کے ساتھ کام کر رہا ہوں وہ شرائط فارم کی شکل میں ساتھ ہیں۔ براہ مہربانی میری شرائط پر غور کیا جائے۔ اگر وہ ٹھیک ہیں تو اس کے جواز کا فتویٰ دیا جائے۔ اگر کسی شق میں غلطی ہے یا کوئی مکمل ٹھیک نہیں تو اس کے بارے میں بتا دیں، ہم وہ غلطی بھی ٹھیک کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ شق بھی نکالنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ہمارا طریقہ کاروباری اور شرائط شریعت کے خلاف نہیں تو فتویٰ بمعہ مہر ہمارے فارم پر تحریر فرما دیں۔ شکریہ

وضاحت مطلوب ہے:

1۔ شق نمبر 14 میں سپلٹ اے سی کی فروخت میں فٹنگ کی شرط کیوں لگاتے ہیں، اور مارکیٹ کارواج کیا ہے؟

2۔ نیچے کی شرائط میں سے تیسری شرط میں پروسیسنگ فیس کیوں لگائی ہے؟ کمپنی کو کیا محنت کرنی پڑتی ہے؟

جواب وضاحت:

1۔ سپلٹ اے سی  کی فٹنگ کی شرط اس لیے لگائی ہے کہ اقساط پر خریداری سے بعض لوگوں کی غرض صرف پیسہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کی نیت اقساط کی ادائیگی کی نہیں ہوتی۔ وہ اے سی ہم سے خرید کر مارکیٹ میں کسی اور دکاندار کے ہاتھ فروخت کر سکتے ہیں۔ سپلٹ اے سی مارکیٹ کی ایک Hot آئٹم ہے۔ اس میں کمپنیوں کی طرف سے دکاندار کو نفع بھی کم ملتا ہے۔ اس وجہ سے دوسرے دکاندار جہاں زیادہ نفع نظر آرہا ہو لے لیتے ہیں۔ جبکہ فریج، اوون وغیرہ دیگر چیزوں پر عام طور سے کمپنیاں دکانداروں کو اچھا نفع دیتی ہیں اور ان کی سیل اے سی جیسی بھی نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے دکانداروں کو اقساط پر خریداری والوں سے  خرید نے میں زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔

اے سی میں دلچسپی کی وجہ سے مارکیٹ میں اقساط کا کاروبار کرنے والے دکانداروں کا رواج ہو گیا ہے کہ وہ فٹنگ کی شرط لگا دیتے ہیں تاکہ اے سی فٹ ہو  جائے اور مارکیٹ میں فروخت نہ ہو سکے۔

2۔ 300 روپے فارم پروسیسنگ کی فیس اس وجہ سے لگائی گئی ہے کہ گاہک کو جب اقساط کی تفصیل وغیرہ ساری معلومات دی جاتی ہیں تو وہ دو ضامنوں کے نام دیتا ہے۔ ضامنوں کو خود نہیں لاتا۔ مارکیٹ کا دستور یہ ہے کہ گاہک کے ضامنوں سے دکاندار خود رابطہ کرتا ہے۔

ضامنوں کے پاس (وہ شہر کے جس علاقے میں بھی ہوں) دکاندار کا نمائندہ جاتا ہے، آس پاس سے ضامنوں کے حالات لیتا ہے۔ اور خود گاہک کےپتے پر بھی جا کر گاہک کے حالات بھی لیتا ہے۔

ضامن بعض اوقات دیے ہوئے ٹائم پر نہیں ملتے یا مل جائیں تو شناختی کارڈ کی کاپی لینے کے لیے نمائندہ کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات ضامنین ضمانت دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ گاہک نے ضامنین سے پوچھ کر ان کا نام دیا ہو۔ وغیرہ وغیرہ

ان وجوہات کے باعث ہم نے 300 روپے پروسیسنگ فیس رکھی ہے، ورنہ دیکھا جائے تو ہمارے ملازم کا وقت، پیٹرول و کھانے پینے کا خرچ عام  طور سے اس سے زیادہ ہو جاتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ آپ کی صورت قسطوں پر اشیاء فروخت کرنے کی ہے، نہ کرایہ پر دینے کی۔ اس لیے لیزنگ (Leasing) کا لفظ نہ لکھیں بلکہ اسٹالمنٹ کا لفظ لکھیں۔ کیونکہ شریعت کے نزدیک فروخت کرنے اور کرایہ پر دینے کی احکامات جدا جدا ہیں۔

2۔ (1) سامان انسٹالمنٹ پر سامان خریدتے ہی خریدار کی ملکیت میں آجاتا ہے اور دکاندار کی ملکیت سے نکل جاتا ہے۔ لہذا بعد میں ملکیت قرار دینے کی شرط درست نہیں ہے۔

3۔ (1) جب جرمانہ وصول نہیں کرتے اور بعد میں پلان میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کرتے تو اس شرط کو واضح طور پر شرائط نامہ میں لکھیں۔

4۔ (8) ماہ رواں کی 25 تاریخ تک قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں الفتح سامان ضبط نہیں کر سکتی البتہ یہ ثابت ہونے کے بعد کہ خریدار بلا وجہ قسط کی ادائیگی میں تاخیر کر رہا ہے تو اولاً یہ قسط ضامنین سے وصول کر لے، ضامنین بھی ادا نہ کریں تو سامان قبضہ میں لے کر مارکیٹ میں مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر دے نہ کہ اونے پونے دام پر اور اپنے پیسے وصول کرنے کے بعد اگر کچھ بچے تو خریدار کو واپس کر دے۔

5۔ (14) وضاحت میں درج تفصیل کی وجہ سے معاہدہ میں سپلٹ کی خریداری کی صورت میں فٹنگ کی شرط لگا سکتے ہیں۔

6۔ وضاحت میں درج تفصیل کی وجہ سے 300 روپے پروسیسنگ فیس کی شرط لگا سکتے ہیں۔

8۔ سامان جب خریدتے ہی خریدار کی ملکیت میں آگیا تو  آپ اس  کی حفاظت کی ذمہ داری کی ضمانت کسی سے نہیں مانگ سکتے۔

9۔ ایک ریٹ پر سودا ہو جانے کے بعد خواہ ابھی تک ڈیلوری نہ دی گئی ہو ریٹ میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔

10۔ پرامیسری نوٹ میں قرض خواہ لکھا ہے، قرض پیسوں کا ہوتا ہے کہ کسی سے پیسے قرض لیے جائیں اور بعد میں پیسےواپس کیے جائیں۔ شریعت کے نزدیک قرض علیحدہ  (Contract) عقد ہے اور اس کی شرائط و تقاضے علیحدہ ہیں، جبکہ ادھار خریداری ایک علیحدہ عقد ہے اور اس کے تقاضے بھی علیحدہ ہیں۔ لہذا ’’قرض خواہ‘‘ کے جملے کو ختم  کر دیں۔

11۔ شرط نمبر 13 میں یہ تبدیلی کر لیں کہ

’’اگر مابین فریقین اشیاء کی خریداری، کوالٹی، ادائیگئ اقساط یا کسی دیگر متعلقہ امور پر اختلاف رونما ہو جائیں اور فریقن بذریعہ گفت وشنید باہمی تصفیہ نہ کر پائیں تو کسی تجربہ کار مفتی سے تصفیہ کرایا جائے گا اور اگر کوئی فریق اس پر عمل نہ کرے تو معاملہ مارکیٹ ایسوسی ایشن کے کسی عہدہ دار کے سپرد ہو گا، جو دونوں سے عمل کروائے گا۔‘‘۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved