• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

’’ اللہ کی قسم اس کے بعد اس گھر میں کھانا نہیں کھاؤں گا ‘‘ ان الفاظ سے قسم کا حکم

استفتاء

ایک شخص کی طبیعت کے مطابق روٹی نہ بنتی تھی تو وہ اس میں عیب نکالتا تھا۔ایک مرتبہ گھر میں اس کی پسند کا سالن نہیں بنا تھا تو وہ غصہ میں آکر یہ قسم کھا گیا کہ

’’قسم دے دینا بعد بازہ دی کور کی روٹی وا نخرم‘‘

ترجمہ:’’اللہ کی قسم اس کے بعد اس گھر میں کھانا نہیں کھاؤں گا‘‘

مطلب یہ تھا کہ اس گھر میں جو روٹی پک جائے وہ نہیں کھاؤں گا۔اب اس شخص کے لیے اس گھر میں مشروبات(چائے،دودھ وغیرہ)پینے اور بازار سے کھانا لا کر اس گھر میں کھانے کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر اس شخص نے مذکورہ گھر میں تیار کردہ  کھانا کھایا تو یہ اپنی قسم میں حانث ہو جائے گا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا،تاہم مذکورہ گھر میں باہر سے لا کر کھانا کھانے اور مشروبات پینے سے حانث نہیں ہو گا۔قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس غریبوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا بدن ڈھانپنے کے برابر کپڑا پہنائے،اگر اتنی وسعت نہ ہو تو تین روزے مسلسل رکھے۔

توجیہ:مذکورہ شخص نے جب اپنی زبان میں یہ کہا کہ ’’قسم دے دینا بعد بازہ دی کور کی روٹی وا نخرم‘‘ترجمہ:’’اللہ کی قسم اس کے بعد اس گھر میں کھانا نہیں کھاؤں گا‘‘تو اگرچہ قسم کے الفاظ میں لفظ روٹی کا استعمال کیا ہے لیکن عرف میں اس سے مراد کھانا ہوتا ہے لہذا مذکورہ گھر میں پکا (تیارکردہ)کھانا کھانے سے قسم ٹوٹ جائے گی اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا ہو گاالبتہ باہر سے کھانا لا کر اس گھر میں کھانے سے قسم نہیں ٹوٹے گی کیونکہ مذکورہ الفاظ سے اس گھر کا کھانا اور ہر قسم کا کھانا دونوں مراد ہوسکتے ہیں اور  مذکورہ شخص کی یہ نیت کرنا کہ’’اس گھر میں جو روٹی پک جائے(تیارہوجائے)وہ نہیں کھاؤں گا‘‘دو میں سے ایک معنیٰ کو معین کردیتا ہے جو کہ معتبر ہے لہٰذا باہر سے کھانا لا کراس گھر میں کھانے سے بھی قسم نہیں ٹوٹے گی اسی طرح مذکورہ شخص مذکورہ گھر میں مشروبات پینے سے بھی  حانث نہ ہو گا کیونکہ وہ قسم میں شامل ہی نہیں۔

الدر المختار(5/549) میں ہے:

الاصل أن الايمان مبنية عند الشافعي على الحقيقة اللغوية، وعند مالك على الاستعمال القرآني، وعند أحمد على النية، ‌وعندنا ‌على ‌العرف، ما لم ينو ما يحتمله اللفظ فلا حنث في لايهدم إلا بالنية.

الدر المختار (5/608) میں ہے:

(‌ولو ‌ضم) لإن أكلت (طعاما أو) شربت (شرابا أو) لبست(ثوبا دين) إذا قال عنيت شيئا دون شيء لأنه ذكر اللفظ العام القابل للتخصيص لأنه نكرة في سياق الشرط فتعم كالنكرة في النفي

وفى الشامية:ثم اعلم أنه لا محل لذكر هذه المسألة هنا بل محلها بعد قوله: ولو ضم طعاما إلخ كما فعله في البحر: أي فيما إذا صرح بالمفعول كما نبه عليه ويدل عليه التعليل بقوله لنيته محتمل كلامه لأنه إذا لم يصرح به ويكون معناه لا أوجد أكلا أو شربا أو لبسا فيحنث بكل أكل وجد، ولذا لم تصح نيته المعين منه بخلاف ما إذا صرح به. لأن طعاما المذكور يحتمل البعض والكل فأيهما نوى صح، ولذا نقل في البحر عن المحيط أنه يصدق قضاء أيضا وعلله في البدائع بأنه نوى حقيقة كلامه، ثم نقل عن الكشف أنه إنما يصدق ديانة فقط، وقال: لأنه خلاف الظاهر لأن الإنسان إنما يمنع نفسه عما يقدر عليه والكل ليس في وسعه وفيه تخفيف عليه أيضا وتمامه فيه»

الدر المختار (5/523) میں ہے:

(وكفارته) هذه إضافة للشرط، لان السبب عندنا الحنث(تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) كما مر في الظهار (أو ‌كسوتهم ‌بما) يصلح للاوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الاطعام(ولو أدى الكل) جملة أو مرتبا ولم ينو إلا بعد تمامها للزوم النية لصحة التكفير (وقع عنها واحد هو أعلاها قيمة، ولو ترك الكل عوقب بواحد هو أدناها قيمة) لسقوط الفرض بالادنى (وإن عجز عنها) كلها(وقت الاداء) عندنا، حتى لو وهب ماله وسلمه ثم صام ثم رجع بهبة أجزأه الصوم.مجتبى.قلت: وهذا يستثني من قولهم الرجوع في الهبة فسخ من الاصل (صام ثلاثة أيام ولاء) ويبطل بالحيض، بخلاف كفارة الفطر.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved