- فتوی نمبر: 28-306
- تاریخ: 14 نومبر 2022
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
T.S *** میں واقع ایک کاسمیٹک اسٹور ہے، جہاں پر کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ریٹیل اور ہول سیل کے اعتبار سے خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
۱۔T.S کے یہاں کسٹمر یا دکاندار آتا ہے اور پیسے دے کر چلا جاتا ہےاور وہ رقم بھی کافی زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ اس نے پھر T.S سے ایک دو دن کے بعد مال لینا ہوتا ہے تو T.S کی جانب سے اس رقم کے ساتھ نام اور امانت لکھ کر وہ رقم سائڈ پر کر دی جاتی ہے اور کسٹمر سے یہ اجازت لے لی جاتی ہے کہ T.S جب چاہے گا اس رقم کو استعمال کرلے گا، اور دکاندار کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے ہی پیسے ہیں، جب چاہیں جتنے چاہیں استعمال کر یں ،اسی طرح T.S کے مالکان کے پاس لوگ بغیر کسی عوض کےیعنی مطلقًا امانتیں رکھواتے ہیں، ان کا مقصد مال لینا نہیں ہوتا تو T.S اس صورت میں ان سے خرچ کرنے کی اجازت لے لیتا ہے ۔
۲۔اسی طرح اگر امانت کی رقم کھلے پیسوں (ریز گاری) کی شکل میں رکھی ہو، مثلاً ہزا رپانچ سو کے نوٹ ہیں،ا ور T.S کو کھلے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے تو T.S والے اس رقم سے کھلے پیسے لے لیتے ہیں۔
۱۔کیا امانت رکھوائی ہوئی رقم کو اجازت لیکر استعمال کرنا درست ہے ؟
۲۔امانت رکھوائے ہوئے کھلے پیسوں کو بوقت ضرورت بندھے پیسوں میں تبدیل کرنا درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔جس کسٹمر یا دکاندار نے آپ سے کچھ خریدنا ہو ا س کی امانت کو استعما ل کرنا جائز نہیں چاہے اس کی طرف سے اجازت بھی ہو اور جس نے آپ سے کچھ نہ خریدنا ہو اس کی امانت کو اس کی اجازت سے استعمال کرنا جائزہے ۔
۲۔کھلے پیسوں کی ضرورت پڑنے پر امانت رکھی ہوئی رقم سے کھلے نوٹ لیکر بندھے نوٹ رکھنا درست ہے کیونکہ عرفا اس تبدیلی کی اجازت ہوتی ہے ۔
تبیین الحقائق(6/29،30):
ومن وضع درهما عند بقال يأخذ منه ما شاء كره له ذلك؛ لأنه إذا ملكه الدرهم فقد أقرضه إياه، وقد شرط أن يأخذ منه ما يريد من التوابل والبقول وغير ذلك مما يحتاج إليه شيئا فشيئا، وله في ذلك نفع، وهو بقاء درهمه وكفايته للحاجات، ولو كان في يده لخرج من ساعته، ولم يبق فيصير في معنى قرض جر نفعا، وهو منهي عنه، وينبغي أن يودعه إياه ثم يأخذ منه شيئا فشيئا، وإن ضاع فلا شيء عليه؛ لأن الوديعة أمانة۔
الاصل للشیبانی قطر(8/443):
قلت: أرأيت الرجل تكون عنده الوديعة فيعمل بها فيربح ولم يأذن له صاحبها؟ قال: هو ضامن للوديعة، والربح له يتصدق به، ولا ينبغي له أن يأكله. بلغنا ذلك عن إبراهيم النخعي (2). قلت: أرأيت إن عمل بها بنفسه بإذن صاحبها؟ قال: هي قرض عليه، والربح له حلال.
الدرالمختار وحاشیۃ ابن عابدین(۲/۲۶۹)
ويتصل بهذا العالم إذا سأل للفقراء شيئا وخلط يضمن.قلت: ومقتضاه أنه لو وجد العرف فلا ضمان لوجود الإذن حينئذ دلالة. والظاهر أنه لا بد من علم المالك بهذا العرف ليكون إذنا منه دلالة۔
مسائل بہشتی زیور(۱/۳۶۵)
ایک شخص نے زکوہ کی رقم مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے کسی کو دی وکیل نے اس میں سے مثلا دس دس کے نوٹ لیے اور سو روپے کا نوٹ اس میں رکھ دیا اور بعد میں زکوۃ میں دےدیا تو زکوۃ ادا ہوگئی۔
احسن الفتاوی(۴/۳۰۰)
ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو زکوۃ یا دوسرے صدقات واجبہ کی مد سے کوئی رقم مساکین کو دینے کے لیے دی اس وکیل نے وہ رقم بدل دی مثلا اس میں سے دس دس روپیہ کے دس نوٹ لے لیے اور سو روپیہ کا نوٹ اس میں رکھ دیا کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ یا جو رقم ملی ہے وہ ہی مساکین کو دینا ضروری ہے؟
جواب: زکوۃ بہر حال ادا ہوجائے گی البتہ تبدیل کا جواز اس پر موقوف ہے کہ موکل کی طرف سے تبدیل کا اذن صراحۃ یا دلالۃ موجود ہو موجود عرف میں اس کی اجازت ہے اس لیے صراحۃ اذن کی ضرورت نہیں مع ہذا صراحۃ اجازت لے لینا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved