• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

امان فاطمہ نام رکھنا کیسا ہے؟

استفتاء

امان فاطمہ نام رکھنا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ نام رکھنے کی گنجائش ہے اور نہ رکھنا بہتر ہے۔

توجیہ:”امان” اور” فاطمہ” اگر دونوں  ناموں کو بغیر اضافت لیا جائے تو یہ دو مستقل ناموں کا مجموعہ ہوگا اور کوئی اشکال نہ ہوگا جیسے “آیت فاطمہ”  عرف میں بغیر اضافت کے مستعمل ہے۔اور اگر اضافت مراد لی جائے تو شرک کا شبہ ہے۔مذکورہ صورت میں چونکہ شرک کے شبہے والا احتمال موجود ہے اس لئے اس نام سے احتراز بہتر ہے۔

فتاویٰ عبدالحی  للکھنویؒ (ص:595)  میں ہے:

سوال: ایک شخص کا نام ہدایت علی تھا اس نے ایہامِ اسماء شرکیہ کی وجہ سے اپنا نام بدل کے ہدایت العلی رکھا ہے تو ایک شخص اعتراض کرتا ہے کہ لفظ ہدایت دو معنوں کو شامل ہے ۔ایک اراءۃ الطریق اور دوسرا ایصال الی المطلوب کو اور اسی طرح لفظ علی بغیر الف لام کے اسماء الہیہ اور اسم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو شامل ہے جواب دینے والا کہتا ہے کہ  اس صورت میں میرے مدعا کے اثبات کی تائید ہے کیونکہ جب لفظ ہدایت اور علی دونوں معنوں مین مشترک ہوئے تو اس صورت مین چار احتمال متحقق ہوتے ہیں(۱)ہدایت کے معنی اول اور علی سے اللہ کانام (۲) ہدایت سے معنی ثانی اور علی سے اللہ تعالیٰ کا نام (۳)ہدایت سے معنی اول اور علی سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ (۴) ہدایت سے معنی ثانی اور علی سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام پس تین احتمال اول دوم سوم ممانعت شرعیہ سے خالی ہیں البتہ احتمالِ چہارم ممنوعیت سے خالی نہیں ہے کیونکہ جملہ اسمائے شرکیہ میں مفہوم ہوتا ہے پس جو اس اسمائے شرکیہ اور غیر شرکیہ میں دائر ہو اس سے احتراز ضروری ہے اور اگر کوئی شخص اسم متنازع فیہ پر قیاس کر کے عبد اللہ پر شرک ثابت کرے یا علی کہنے کی ممانعت کرے تو معترض کا اعتراض اور اس کا قیاس صحیح ہے یا نہیں  اور صحت اعتراض کی حالت میں مجیب کے کلام کی تائید ہو گی یا جیساکہ معترض خیال کرتا ہے ۔

جواب:لفظ علی جو اسماء الہیہ میں سے ہے اس پر الف لام یا زائد ہو یا تعظیمی جیساکہ رضی نے شرح کافیہ میں الفضل اور النعمان کی بحث میں لکھا ہے:وقد يزاد اللام فى العلم وقال الكوفيون قد يكون اللام للتعظيم كما فى الله وفى الاعلام ولا يعرفها البصريون

علم پر کبھی الف لام زائد کیا جاتا ہے اور کوفیین کہتے ہیں کہ بعض اوقات الف لام تعظیم کے لئے آتا ہے جیسے اللہ میں اور دوسرے ناموں میں اور بصریین اس کے قائل نہیں ہیں ۔اور ابن مالک نے الفیہ میں اور شراح الفیہ نے اعلام میں الف لام زائد کا ذکر کر کے الفضل وغیرہ کو مثال میں پیش کیا ہے ۔اور ہر حالت میں لام اسماء الہیہ پر سوائے لفظ الہ کے علم کا جز نہیں ہے اور لفظ علی پر جو اسمائے حضرت مرتضی رضی اللہ عنہ سے ہے لام داخل نہیں ہوتا ۔بحر العلوم رحمہ اللہ حواشی میر زاہد ملا جلال میں لکھتے ہیں :دخول اللام علي الاعلام فيصح سوى لفظ محمد على مسماة الصلاة والسلام وسوى لفظ علي رضى الله عنه۔

پس ہدایت علی سے ہدایت العلی نام رکھنا اولیٰ ہے ۔کیونکہ ہدایت العلی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب اضافت کا اشتباہ نہیں ہے اور ہدایت علی میں اشتباہ ہے۔

فتاویٰ رشیدیہ (ص:191) میں ہے:

سوال: نبی بخش، پیر بخش …………. ایسے ناموں کا رکھنا کیسا ہے؟

جواب: ایسے نام موہم شرک ہیں، منع ہیں ان کو بدلنا چاہیے۔

کفایت المفتی (1/231) میں ہے:

علی بخش، پیر بخش، رسول بخش نام رکھنا اچھا  نہیں ہے، اس میں شرک کا شائبہ اور ایہام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved