ایمازون پر ری ویو(review)لینے کا حکم
- فتوی نمبر: 31-171
- تاریخ: 06 اگست 2025
- عنوانات: مالی معاملات > آن لائن کمائی > فیک ریٹنگ
استفتاء
ایمازون کا ایک دکاندار(سیلر) اپنی پروڈکٹس کی لسٹ جاری کرتا ہے لیکن اس پروڈکٹ کی ترویج کے لیے اس کو گاہک کی طرف سے مثبت تبصروں( ری ویوز) کی ضرورت ہوتی ہے ،کیونکہ ان تبصروں کو دیکھ کر مزید گاہک اس چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔اب اس کے لیے سیلر ایک بندے سے رابطہ کرتا ہے کہ وہ اس کے لئے ایسا کسٹمر تلاش کرے جو اس پراڈکٹ پر مثبت تبصرہ دے جس کے نتیجے میں دکاندار (سیلر) اس ایجنٹ کو کمیشن بھی دے گااورخریدار (کسٹمر) سے خریدی ہوئی چیز کی قیمت بھی نہیں لے گا ،اور اگر کسٹمر سیلر کومثبت تبصرہ( ری ویو) نہ دے تو درمیان والے بندے کو کمیشن نہیں ملتا۔اس طرح سیلر کو”ری ویو “مل جاتا ہے اور ایجنٹ کو “کمیشن “اور کسٹمر کو وہ” مبیع بلا قیمت “مل جاتی ہے ،اب سوال یہ ہے کہ اس طریقے سے آنلائن کام کرنا کیسا ہے؟
نوٹ: خلاصہ یہ ہے کہ دکاندار کو اپنی پراڈکٹ کی ترویج کے لیے مثبت تبصرہ چاہیےہوتا ہےجس کے لیے وہ تبصرہ نگار کو پراڈکٹ مفت دیتا ہےاور ایجنٹ کا کام یہ ہے کہ وہ اس کے لیے تبصرہ نگار تلاش کرے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
گاہک سے اس طریقے سے تبصرہ حاصل کرنا اور اس میں ایجنٹ بننا جائزنہیں جس کی وجوہات درج ذیل ہیں۔
1 ۔اغلب یہ ہے کہ گاہک مفت پراڈکٹ کے لالچ میں غیر حقیقی تبصرہ کرے گا جو کہ دوسرے گاہکوں کے لیے دھوکے کا باعث ہوگا۔
2۔ ایمازون کی اس مارکیٹ میں تبصرے غیر جانبدارانہ رائے سمجھے جاتے ہیں اور عرفا اس کو قابل عوض بھی نہیں سمجھا جاتا ، لہذا ایسی رائے دینے پر عوض لینا رشوت ہے اس لیے گاہک کو تبصرہ کے عوض مفت چیز دینا رشوت ہے۔
مرقاة المفاتیح(رقم الحدیث:3753) میں ہے:
(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، …. الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل..
امداد الفتاوی(370/3) میں ہے:
’’جو چیز کسی کو دی جاتی ہے اس کی دو حالتیں ہیں یاتو بعوض دیا جاتا ہے یا بلاعوض ،اور جو بعوض دیا جاتا ہے دو حال سے خالی نہیں یا تو ایسی شے کا عوض ہے جو شرعا متقوم وقابل عوض ہے اور یا ایسی شے کا عوض ہے جو شرعا متقوم وقابل عوض نہیں خواہ حقیقۃ جیسا عقود باطلہ میں ہوتا ہے یا حکما جیسا عقود فاسدہ میں ہوتا ہے ۔
اور جو بلاعوض دیا جاتا ہے وہ بھی دوحال سے خالی نہیں یا تو محض طیب خاطر اور آزادی سے دیا جاتا ہے یا تنگی خاطر وکراہت قلب سے دیا جاتا ہے خواہ وہ تنگی خاطراورکراہت قلب زیادہ ہو یا کم ہو۔
یہ کل چار قسمیں ہوئیں ۔
(۱)قسم اول جو متقوم شے کے عوض میں حاصل ہو ۔(۲)قسم دوم جو غیر متقوم شے کے عوض میں حاصل ہو (۳)قسم سوم جو بلاعوض بطیب خاطر حاصل ہو (۴)قسم چہارم جو بلاعوض بکراہت حاصل ہو ۔
قسم اول بوجہ اجرت یا ثمن ہونے اور قسم سوم بوجہ ہدیہ وعطیہ ہونے کے حلال ہے۔ اور قسم دوم بوجہ رشوت یا ربوا حقیقی یا حکمی ہونے اور قسم چہارم بوجہ ظلم یا جبر فی التبرع ہونے کے حرام ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved