• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

عملیات و تعویذات

استفتاء

وضاحت مطلوب ہے کہ: آپ کا سوال بہت عمومی اور وسیع ہے جس کے جواب کے لیے بہت سی صورتوں کا بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ سے گذارش ہے کہ کسی خاص صورت کو طے کرکے اس کا حکم معلوم کریں۔

جواب وضاحت: خاص صورت یہ ہے کہ جناب شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی صاحب حفظہ اللہ عبقری والے قرآن و حدیث اور اکابرین امت کی تعلیمات کو عام کر رہے ہیں۔

اپنے بیانات میں وہ اکثر یہ کہتے ہیں کہ اس وظیفہ کا یہ دنیاوی فائدہ ہے یہ دنیاوی فائدہ ہے۔

اسی طرح حضرت حکیم صاحب حفظہ اللہ کچھ ایسی چیزیں بھی فروخت کرتے ہیں جو قرآن و حدیث اور اکابرین امت کی تعلیمات کے مطابق ہوتی ہیں مثال کے طور پر ادارہ عبقری میں برکت والی تھیلی کے نام سے کپڑے کی ایک تھیلی بکتی ہے اس بارے میں حکیم صاحب حفظہ اللہ کا فرمانا ہے کہ اس تھیلی کے استعمال سے پیسوں میں برکت آتی ہے جس کا میں خود  گواہ  ہوں کہ اس تھیلی میں رکھے ہوئے پیسے بیماریوں پریشانیوں میں نہیں لگتے ۔

ایک تبلیغی صاحب نے مجھے بتایا کہ عالمی تبلیغی مرکز رائیونڈ کے حضرات پیسوں کے لیے کپڑے کی تھیلی استعمال کرنے کا فرماتے ہیں یا خود  استعمال کرتے ہیں۔ (راقم کو یہاں الفاظ میں شک ہے)

کیا اس طرح کسی ایسی چیز کو جو قرآن و حدیث یا اکابرین کے استعمال میں ہو اس کے متعلق دنیاوی فوائد بتا کر اس کو فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

سوال کرنے کا مقصد کسی کی تضحیک  یا تنقیص نہیں ہے بلکہ حق کو قبول کرنا ہے۔

یاد رہے بندہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہ مولانا مفتی سید محمود الحسن شہید رحمہ اللہ فاضل دیوبند کا پوتا، حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کا بھانجا اور ایک مدرسہ میں شریک دورہ حدیث ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو عملیات اور وظائف سنت سے ثابت ہوں انہیں بتلانا یا ان کو فروخت کرنا جائز ہے اور جو عملیات اور وظائف سنت سے ثابت نہ ہوں بلکہ مجربات مشائخ میں سے ہوں ان میں اگر کوئی شرعی خرابی نہ ہو تو انہیں بتلانا یا ان کو فروخت کرنا بھی جائز ہے تاہم اصل برکت تو ایمان اوراعمال صالحہ کو اختیار کرنے میں ہے اور آدمی کو چاہیئے کہ وہ خود بھی ایمان اور اعمال صالحہ پر کاربند ہواور عوام کو بھی اسی کی ترغیب دے۔ یہی ہمارے اکابر کا طرز عمل تھا تاہم اکابر بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت ایسے عملیات و وظائف بھی لوگوں کو بتلا دیا کرتے تھے جو اگرچہ سنت سے ثابت نہ ہوں لیکن مجربات مشائخ میں سے ہوں لیکن نہ تو وہ اس کو اپنا مشغلہ بناتے تھے اور نہ اس کی مہم چلاتے تھے اور نہ وہ اس کو کوئی دینی کام سمجھتے تھے بلکہ بعض احوال میں وہ اس کو ناجائز بھی سمجھتے تھے اور ناجائز سمجھنے کی یہ وجہ نہ تھی کہ ان عملیات و وظائف میں بذات خود کوئی خرابی تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ عوام کے نظریات  و عقائد ان عملیات و وظائف کے بارے میں حد اعتدال سے متجاوز ہو رہے تھے جب اکابر کے زمانے کے لوگ حد اعتدال سے متجاوز ہورہے تھے تو آج کل کے عوام کا تو کیا ہی کہنا۔ لہٰذا ان عملیات اور وظائف کو اس طریقے سے اپنا مشغلہ بنانے اور ان کی مہم چلانے سے اجتناب کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

تھیلی چونکہ کپڑا   ہے جو قابل فروخت ہے۔ لہٰذا اس کی خرید و فروخت فی نفسہ جائز ہے لیکن اگر اس کے ساتھ بھی حد اعتدال سے متجاوز معاملہ ہو تو اس کا حکم بھی یہی ہوگا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:

امراض و پریشانیاں دور کرنے کے تین طریقے

امراض و پریشانیاں دور ہونے کی کل تین تدبیریں ہیں: دوا، دعا،  تعویذ۔ پہلی دو تو ضرور کرو اور تیسری کبھی کبھی بعض امراض میں کر لو تو مضائقہ نہیں۔  یہ نہ کرو کہ دوا اور تعویذ پر اکتفا کر لو اور دعا کو بالکل چھوڑ دو۔(خطبات حکیم الامت9/37)

جس طرح بیماری کا علاج دوا دارو سے ہوتا ہے اسی طرح بعض موقع پر جھاڑ پھونک سے بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔ (بہشتی زیور466)

خلاصہ یہ ہے کہ  مرض میں چھوڑنے کی شے شکوہ و شکایت اور بے صبری کی باتیں ہیں کرنے کے کام یہ ہیں کہ جم کر اور استقلال سے دوا اور دعا کرو احیاناً جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈے جو حد شریعت کے اندر ہوں کر لو مضائقہ نہیں۔ (خطبات حکیم الامت 9/39)

عملیات و تعویذات کی شرعی حیثیت

عملیات و تعویذات اگر صحیح اور جائز ہوں تب بھی (ان کی حیثیت) دنیاوی اسباب اور طبی (یعنی علاج و معالجہ کی) تدبیر کی طرح ہے۔ (التقی فی احکام الرقی ص26، بحوالہ اشرف العملیات ص:18)

طبّی دواؤں کی طرح یہ بھی (ایک دوا اور علاج) ہے، مؤثرِ حقیقی نہیں، نہ اس پر اثر مرتب ہونے کا اللہ و رسول کی طرف سے حتمی وعدہ ہوا ہے اور نہ اللہ کے نام اور کلام کا یہ اصلی اثر ہے۔ (حاصل یہ کہ) جھاڑ پھونک (عملیات و تعویذات) دوسرے جائز کاموں کی طرح (ایک جائز کام) ہے اگر اس میں کوئی مفسدہ شامل ہوجائے یا جواز کی شرط نہ پائی جائے تو ناجائز اور معصیت ہے۔ (التقی فی احکام الرقی ص:30،26،24 بحوالہ اشرف العملیات ص:18)

عملیات تعویذات اور دوا، دارو کا فرق

ایک خرابی اس میں یہ دیکھی گئی کہ اکثر لوگ تعویذ گنڈہ کرنے والے کی بزرگی کے معتقد ہوجاتے ہیں خصوص جس کے تعویذ گنڈوں سے نفع ہوجاتا ہے حالانکہ بزرگی سے اس کو کوئی تعلق نہیں یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی طبیب کے کسی نسخہ سے مرض کو شفاء ہوجائے اور اس کو بزرگ خیال کرنے لگیں مگر تعویذ دینے والے کے معتقد ہیں نہ معلوم اس میں اور اس میں کیا فرق کرتے ہیں۔ میرے نزدیک تو کوئی فرق نہیں دنیوی فن ہیں۔ وجہ فرق کی صرف ایک سمجھ میں آتی ہے کہ طبیب کے علاج کو امر دینوی سمجھتے ہیں اور عامل کے علاج کو امر دینی خیال کرتے ہیں اور عوام کا یہ خیال اس وجہ سے ہے کہ عملیات کا امور عالیہ قدسیہ سے تعلق ہے نیز اس کے علاوہ  بھی ان تعویذ گنڈوں کے متعلق اکثر لوگوں کے عقائد بہت ہی خراب ہیں جس کا سبب جہل اور حقیقت سے بے خبری ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت 4/204)

علمیات بھی دوا کی طرح ایک ظاہری تدبیر ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے اور دوا میں فتنہ نہیں۔ وہ فتنہ یہ ہے کہ عامل کی طرف بزرگی کا خیال ہوتا ہے اور طبیب(ڈاکٹر) کی طرف بزرگی کا خیال نہیں  ہوتا۔ عوام عملیات کو ظاہری تدبیر سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ آسمانی اور ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عملیات اور تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں۔ (ملفوظات حکیم الامت8/335)

عملیات میں ثواب کا اعتقاد رکھنا بدعت ہے

عملیات میں ایک بات قابل لحاظ یہ ہے کہ جو عملیات دنیا کے واسطے ہوتے ہیں وہ موجب ثواب نہیں ہوتے ہیں (یعنی ان کے کرنے میں ثواب نہیں ملتا) ان میں ثواب کا اعتقاد رکھنا بدعت ہے۔ (خطبات حکیم الامت 2/136،135)

عملیات و تعویذات کرنا افضل ہے یا نہ کرنا افضل ہے

عملیات و تعویذات نہ کرنے کی فضیلت: حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے اور بد شگونی نہیں لیتے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جو جھاڑ پھونک ممنوع ہے وہ نہیں کرتے اور بعض نے کہا ہے کہ افضل یہی ہے کہ جھاڑ پھونک بالکل نہ کرے اور بدشگونی یہ کہ مثلاً چھینکنے کو یا کسی جانور کے سامنے سے نکل جانے کو منحوس سمجھ کر وسوسہ میں مبتلا ہوجائیں۔ مؤثر حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہیں، اس قدر وسوسہ نہ کرنا چاہیے۔ (فروع الایمان ص:29،فصل: رضاء بالقضاء)

احادیث سے افضل اور اکمل حالت یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس کو (یعنی عملیات و تعویذات کو) نہ کیا جائے اور محض دعا پر اکتفا کیا جائے۔ اور ترک رقیہ(یعنی جھاڑ پھونک نہ کرنے) کی فضیلت ترک دوا سے بھی زائد ہے کیونکہ عوام کے لیے تداوی (علاج معالجہ) میں مفسدہ کا احتمال بعید ہے اور جھاڑ پھونک میں نہیں۔و أما رقية النبيﷺ لنفسه فيحتمل إظهار العبودية و الافتقار، و أما بغير فيحتمل کونه للتشريع و بيان الجواز. وأما رقية جبرئيل للنبيﷺ فيحتمل الدعاء، لان القرآن کما يختلف دعاء و تلاوة للجنب بالنية، کذلک يختلف دعاء ورقية بالنية.(التقی فی احکام الرقی ص:33، بحوالہ اشرف العملیات ص:43)

کس قسم کے عملیات تعویذ گنڈے ممنوع ہیں

تعویذ  گنڈا وہ برا ہے جو خلاف شرع ہو یا اس پر تلکیہ و اعتماد (یعنی پورا بھروسہ) ہوجائے اور اگر من جملہ تدبیر عادی کے سمجھا جائے اور شرع کے موافق ہو تو کچھ حرج نہیں۔ تسہیل تربیت السالک2/442)

البتہ جو عملیات خاص قیدوں کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں اور عامل ان کو دلیل سے زائد مؤثر سمجھ کر گویا اثر کو اپنے قبضہ میں سمجھتا ہے۔ ایسے عملیات طالبِ حق کی وضع کے خلاف ہیں۔ (بوادر النوادر، ص:98)

تعویذات عملیات کے پیچھے نہ پڑنے کی ترغیب اور چند بزرگوں کی حکایتیں

آج کل لوگوں کو عملیات کے بارے میں اس قدر غلو ہو گیا ہے کہ عزائم و عملیات کا مجموعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان چیزوں میں پڑ کر مقصود سے بہت دور جا پڑے۔ اس لیے کہ اصل مقصود اصلاحِ نفس ہے مگر اس کی بالکل پرواہ نہیں۔ ایک مرتبہ میں نے طالب علمی کے زمانے میں حضرت  مولانا محمد یعقوب سے عرض کیا کہ حضرت کوئی ایسا بھی عمل ہے جس سے موکل تابع ہوجائیں؟ فرمایا : ہے تو، مگر یہ بتلاؤ کہ تم بندہ بننے کےلیے پیدا ہوئے یا خدائی کرنے کے لیے؟ بس مولانا کا اتنا کہنا تھا کہ مجھ کو بجائے شوق کے ان عملیات سے نفرت ہوگئی۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی کے ایک مرید کا یہ خیال تھا کہ حضرت عمل پڑھتے ہوں گے جس کی وجہ سے اس قدر معتقدین کا ہجوم ہے۔ آپ کو اس خطرہ پر اطلاع ہوگئی۔ آپ نے فرمایا: ارے معلوم بھی ہے کہ ان عملیات سے باطنی نسبت سلب ہوجاتی ہے۔ قربان جائیے حضور اکرمﷺ پر کہ ان سب فضولیات سے بچا کر ہم کو ضروری چیزوں کی طرف لائے۔ میں نے ان چیزوں کے عالموں کو  (یعنی عاملین کو) دیکھا ہے کہ ان میں کوئی باطنی کمال نہیں ہوتا بلکہ اور ظلمت بڑھتی ہے۔ الحمدللہ مجھے مولانا کے ارشاد کے بعد عملیات سے کبھی مناسبت نہیں ہوئی۔ (ملفوظات حکیم الامت4/154،155)

باقاعدہ عملیات میں مشغول ہونے سے باطنی نسبت سلب ہوجاتی ہے

مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی نے فرمایا کہ ارے معلوم  بھی ہے کہ عملیات میں مشغول ہونے سے باطنی نسبت سلب ہوجاتی ہے۔ اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملیات اصل میں ایک قسم کے تصرفات ہیں جو دعوے کو متضمن ہیں اور ایسا تصرف عبدیت کے منافی ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت8/333)

ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت جیسے عملیات کرنے سے نسبت سلب ہوجاتی ہے اگر کوئی شخص بطور علاج کے دوسرے سے عمل کرائے (تو کیا اس سے بھی نسبت سلب ہوجاتی ہے؟) فرمایا کہ عمل کرنے میں گفتگو تھی، کرانے میں نہیں، عمل کرانا بطور علاج کے ضرورت کی وجہ سے ہوتا ہے جب کہ واقعی بھی ضرورت ہو( اس لیے اس میں کوئی نقصان نہیں۔) (ملفوظات حکیم الامت 8/334)

اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے دو طریقےخدا تعالیٰ سے مانگنے کے دو طریقے ہیں: ایک تو دنیا کے واسطے خدا تعالیٰ سے دعا کرنا اور دعا کے ذریعے سے مانگنا یہ مذموم نہیں ہے بلکہ یہ تو شانِ عبدیت ہے اور ایک یہ ہے کہ وظیفہ پڑھ کر مانگنا یہ مذموم(بُرا) ہے۔ اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے وہ یہ کہ دعا کرکے مانگنے میں ایک ذلت کی شان ہوتی ہے اور یہ اس مقصود کے موافق ہے جو بندوں کے پیدا کرنے سے اصل مقصود ہے۔ یعنی یہ کہ اللہ نے انسان کو عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے اسی واسطے حدیث میں آیا ہے: الدعاء مخ العبادة.  کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت3/55)دعا میں ایک خاصہ ہے جس کی وجہ سے دعا کرکے دنیا مانگنا جائز ہے اور وظیفہ میں وہ بات نہیں اس  لیے وہ مذموم ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت3/56)دعا کی حقیقت وہ ہے جو عبادت کی روح ہے یعنی تذلل اور اظہارِ احتیاج، دعا کا یہ رنگ ہوتا ہے جس سے سراسر عاجزی اور محتاجگی ٹپکتی ہے۔ اور وظیفہ میں یہ بات نہیں بلکہ اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ وظیفہ پڑھ کر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وظیفے کے زور سے ہمارا مقصود ضرور حاصل ہوگا تو ایسی حالت میں عاجزی و محتاجگی کا اظہار کہاں؟ پس دنیا کے واسطے وظیفہ پڑھنا اور دنیا کے لیے دعا کرنا برابر نہیں۔ اگر کوئی دنیا کے واسطے دعا مانگے اور یوں کہے کہ اے خدا! مجھے سو روپے دے دیجئے، تو یہ جائز ہے، بلکہ اس میں بھی وہی ثواب ہے جو آخرت کے لیے  دعا کرنے میں ہے، بشرطیکہ دعا ناجائز کام کے لیے نہ ہو کیونکہ دنیا کے لیے ہر دعا جائز نہیں بلکہ جو شریعت کے موافق ہو وہی جائز ہے۔ مثلاً کوئی شخص ناجائز ملازمت کے لیئے   دعا مانگے تو یہ جائز نہیں (البتہ جائز دعا مانگنے میں ثواب بھی ہے) اور دنیا کے واسطے وظیفہ  پڑھنے میں کوئی ثواب نہیں۔ (خطبات حکیم الامت 3/57)

دعا اور وظیفہ کا فرقایک صاحب کا خط آیا ہے انہوں نے دنیا کے کام کے واسطے وظیفہ دریافت کیا ہے۔ میں نے لکھ دیا ہے کہ دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں۔ پھر فرمایا کہ عملیات میں ایک دعویٰ کی سی شان ہوتی ہے اور دعا میں احتیاج و نیاز مندی کی شان ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ چاہیں گے تو کام ہوجائے گا اور عملیات میں یہ نیاز اور احتیاج نہیں ہوتا بلکہ اس پر نظر رہتی ہے کہ جو ہم پڑھ رہے ہیں اس کا خاصہ ہے کہ یہ کام ہو ہی جائے گا۔ مگر اس کے باوجود دعا کو لوگوں نے بالکل چھور ہی دیا اور عملیات کے پیچھے پڑ گئے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ دعا کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ سے کیوں مستغنی(بے نیاز) ہوگئے۔ ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔ اس کی طرف لوگوں کی نظر بہت ہی کم جاتی ہے وہ یہ کہ اوراد و وظائف دنیا کے کا م واسطے پڑھو گے تو اس پر اجر و ثواب نہ ہوگا اور دعا اگر دنیا کے واسطے بھی ہوگی وہ بھی عبادت ہوگی اور اس میں اجر و ثواب ملے گا۔ (ملفوظات حکیم الامت1/365)عملیات کو مؤثر سمجھنے میں عقیدے کا فساد اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے غفلتاگر عملیات پر جازم (یعنی ایسا پختہ) اعتقاد ہو کہ اس میں ضرور فلاں تاثیر ہے اور اسی پر پوری نظر اور کامل اعتماد ہوجائے تو بھی ناجائز ہے اور یہی مراد ہے اس حدیث سے: من تعلق شيئا و کل اليه. اور یہ یقینی بات ہے کہ آج کل اکثر عوام عملیات کو ایسا مؤثر سمجھتے ہیں کہ حق تعالیٰ سے بھی غافل اور بے فکر ہوجاتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں حتیٰ کہ عامل ان آثار کو قریب قریب اپنے اختیار و قدرت میں سمجھنے لگتا ہے، بلکہ کبھی زبان سے بھی دعویٰ کرنے لگتا ہے کہ میں یوں کردوں گا۔ اور اگر عامل کا ایسا اعتقاد نہ ہوا لیکن (عوام الناس) جاہلوں کا یہ اعتقاد تو ضرور ہوتا ہے (کہ عامل صاحب چاہیں تو سب کچھ کر سکتے ہیں) چوں کہ عامل تعویذ دے کر اس فساد کا زیادہ سبب بنتا ہے۔ ایسے شخص کو (جس کا عقیدہ فاسد ہے) تعویذ دینا بھی درست نہیں معلوم ہوتا، کیوں کہ معصیت(گناہ) کا سبب بننا بھی معصیت ہے۔ (التقی فی احکام الرقی، ص:30، بحوالہ اشرف العملیات، ص:80)مفاسد کی وجہ سے کیا تعویذ کا سلسلہ بند کر دینا چاہیےفرمایا کہ: اصل تو یہ ہے کہ تعویذ گنڈوں کو بالکل حذف اور مسدود(یعنی اس سلسلے کو بند) کیا جائے لیکن اگر غلبہ شفقت سے کسی مصلح  شفیق  کو یہ گوارہ نہ ہو تو تدریج سے کام لیا جائے (یعنی آہستہ آہستہ کم کیا جائے) اس کی صورت یہ ہے کہ اس سلسلے کو ظاہراً تو جاری رکھا جائے لیکن ہر طالب سے یہ بھی ضرور کہہ دیا جائے کہ میں اس کام کو نہیں جانتا۔ مگر تمہاری خاطر سے کیے دیتا ہوں چند روز کے بعد یہ سمجھائیں کہ لوگ اس کو جس درجے کی چیز سمجھتے ہیں یہ اس درجے کی چیز نہیں ہے۔ اس کے بعد ایسا کیا جائے کہ کسی کو دے دیاجائے اور کسی سے عذر کر دیا جائے مگر نرمی سے۔ پھر بالکل حذف کر دیا جائے۔ (انفاس عیسی 2/505)

حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب یکم محرم الحرام کو بسم اللہ لکھنے کے مجرب عمل کے بارے میں لکھتے ہیں:

یکم محرم الحرام کو 113مرتبہ بسم اللہ لکھنے کی شرعی حیثیت

مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ نے ’’جواہر الفقہ‘‘ میں لکھا ہے:

’’جو شخص محرم کی پہلی تاریخ کو ایک سو تیرہ مرتبہ(113) مرتبہ پوری بسم اللہ الرحمن الرحیم کاغذ پر لکھ کر اپنے پاس رکھے گا ہر طرح کی آفات و مصائب سے محفوظ رہے گا۔ مجرب ہے۔‘‘ (جواہر الفقہ: 2/187)

مذکورہ عمل قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، نہ ہی شرعاً یہ فرض، واجب، مسنون اور مستحب ہے، بلکہ از قبیل مجربات، مباح اور جائز عمل ہے، کر سکتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کے حق میں یہ عمل مؤثر اور فائدہ مند ہو۔

فی زمانہ عوام الناس جس طرح اس عمل میں حد درجہ دلچسپی لے رہے ہیں اس کا ترک کر دینا اور اسے نظر انداز کر دینا بہتر معلوم ہوتا ہے ورنہ ذرائع ابلاغ کی تیز رفتاری کے اس دور میں آئندہ چند سالوں میں عوام الناس اسے یکم الحرام کا ایک لازمی جزو سمجھ لیں گے، ویسے بھی امت کے فقہاء نے کسی مستحب عمل کے متعلق لکھا ہے کہ اگر لوگ اسے ضروری سمجھنے لگیں تو اس کا ترک لازم ہوجاتا ہے، جبکہ مذکورہ عمل تو صرف مجرب ہے، مستحب بھی نہیں ہے۔

لہٰذا جب اس میں عوام الناس کا اس درجہ غلو ہونے لگے کہ رسم کی شکل بن جائے اور اسے ضروری سمجھا جانے لگے (جو کہ تقریباً ہو رہا ہے) تو اس کا ترک کر دینا بدرجہ اولی ضروری ہوگا۔

الصرار على المندوب يبلغه إلى حد الکرابة. (سعاية ۲،۲۶۵، الدر المختار، باب سجدة الشکر/ قبيل باب صلاة المسافر۲،۱۲۰، کراچى، ۲، ۵۹۸زکريا)

قال الطيبي، و فيه من أصر على أمر مندوب و جعله عزما، و لم يعمل بالرخصة فقد إصاب من الشيطان من الإضلال، فکيف من أصر على أمر بدعة أو منکر. (مرقاة المفاتيح۲، ۱۴، فتح الباري۲، ۳۳۸)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved