• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر فلمیں بنانے اور انہیں دیکھنے کاشرعی حکم

استفتاء

آج کل ٹی وی کے ذریعے ایسی فلمیں ( ویڈیو، مووی وغیرہ) دیکھائی جارہی ہیں جن میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام مثلاً (حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہم ) کے کردار اور واقعات فلمائے گئے ہیں۔ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ یہ فلمیں قرآنی واقعات کی عملی تفسیر ہیں( واللہ اعلم بالصواب) اور ان فلموں کے ذریعے بہت آسانی سے قرآنی واقعات سمجھ میں آتے ہیں، نیز ان فلمائے گئے واقعات سے بہت سبق ملتا ہے۔

حالانکہ ان فلموں میں حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو بطور عیاش حکمران اور عاشق ( حضرت یوسف علیہ السلام کو زلیخا نامی عورت سے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ بلقیس کے ساتھ عاشقانہ رویہ ) کے ظاہر کیا گیا ہے۔ اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کو وحی لاتے ہوئے بھی دیکھایا گیا ہے نیز آج کل ان فلموں کی سی ڈیز بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ

1۔ ان فلموں کو دیکھنا کیسا ہے؟

2۔ ان فلموں کو بنانے والوں اور دیکھنے والوں کا کیا حکم ہے؟

3۔ ان فلموں کو دیکھنے والوں اور بنانے والوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟

4۔ ان فلموں کی ویڈیو سی ڈیز کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟

الجواب

فلم بینی وفلم سازی ہر حالت میں حرام ہے ۔کیونکہ ہر فلم میں کم ازکم بھی اس کے اجزائے ترکیب کی حیثیت سے ایسی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے بہرطور فلم بینی وفلم سازی جائز نہیں رہتی۔یہ خرابیاں نیچے مذکورہیں۔

1۔فلم میں تصویرسازی کے بغیر چارہ نہیں اور تصویر سازی خواہ ساکن ہو یا متحرک،حرام ہے۔

2۔فلمیں محض لہو ولعب ہیں جو حرام ہے۔اگراس میں موسیقی شامل ہو یا اس میں عورتیں بھی شامل ہوں توخرابی اور بڑھ جاتی ہے۔

علاوہ بریں انبیاء یاصحابہ پر فلمیں بنانے میں مزید مفاسد یہ ہیں:

1۔یہ حضرات تاریخی نہیں قرآنی شخصیات ہیں اور انہیں مذہبی تقدیس حاصل ہے۔ لہذاان کے ساتھ دیگر تاریخی شخصیات کا سامعاملہ کرنا درست نہیں ہے۔

2۔نبی یا صحابی کے واقعات کی نقل بالکل مطابق اصل ہو تو بھی (بوجہ اداکاری)سراسر جھوٹ ہوگی یہ عمل ان مقدس شخصیات کو جھوٹ سے آلودہ کرنے کے مترادف ہے۔

3۔انبیاء وصحابہ کا کردار ادا کرتے ہوئے خود کو نبی یا صحابی کےطورپرپیش کرنا کھلی بے باکی ہے۔

4۔اکثر اوقات دیکھنے والے کا اس جھوٹے شخص اور تصویر سے محبت وعقیدت کا تعلق قائم ہوجاتاہے اور نبی یاصحابی کے لیے اس کے ذہن میں اس کردار کی تصویر چپک کررہ جاتی ہے۔اس میں کئی مفاسد ہیں:

جھوٹ سے عقیدت،جھوٹے( اداکار) سے عقیدت، تصویر جیسے گناہ سے عقیدت،بعض اوقات غیر نبی وغیر صحابی کے لیے نبی وصحابی ہونے کا خیال ۔

5۔یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دوسرے گناہوں میں ملوث آدمی گناہ کو براسمجھتاہے جبکہ یہاں اسے گناہ کو گناہ سمجھنے کے بجائے گناہ کے کام سے محبت وعقیدت کا تعلق ہوجاتاہے۔ اس کا خطرناک ہونا ظاہر ہے۔

6۔نبی یا صحابی کا کردار ادا کرنے والے اداکار بعض اوقات کافر ورنہ فاسق تو ضرور ہی ہوتے ہیں۔ ایک کافر یا فاسق کو نبی یا صحابی بنا کر پیش کر نا جتنا قبیح اور خطر ناک ہے،محتاج بیان نہیں۔

7۔عموماًفلم کی کہانی بنانے میں انبیاء وصحابہ کا کردار ادا کرنے والے ایسی باتیں اور کام کرتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں۔ یہ جان بوجھ کر نبی پر جھوٹ باندھناہے جس پر جہنم کی سخت سزا کی وعید ہے۔

8۔ساز،موسیقی اور بے پردگی وغیرہ سے ان فلموں کی قباحت مزید کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

چنانچہ ان فلموں کا دیکھنا شدید اوربناناشدید تر گناہ ہے۔ ان فلموں کو ترجمہ کرکے نشر کروانے والے اس گناہ کے فروغ کا سبب ہیں،ان فلموں کے بنانے اورچلانے میں معاونت کرنے والے معاونت علی الإثم کے مجرم ہیں اوران کا کاروبار کرنے والے حرام کاروبار کے مرتکب ہیں۔ان تمام گناہوں میں ملوث مسلمانوں کو فوراًتوبہ کرکے ان گناہوں سے کنارہ کش ہوجاناچاہئے۔حکومت کا فرض ہے کہ ایسی فلموں کی اشاعت پر پابندی لگائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو مناسب تعزیری سزادے۔اورجو لوگ ان فلموں کی اشاعت روکنے میں مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں انہیں کوشش کرکے ان پر پابندی لگوانا لازم ہےاوریہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved