- فتوی نمبر: 22-202
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > تصاویر
استفتاء
مفتی صاحب ! ایک دوست نے کسی بریلوی عالم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ انڈے کا چھلکا کھانا کیسا ہے؟ دلیل کے ساتھ جواب دیں ۔تو اس نے جواب میں کہا کہ اس بارے میں کوئی صریح مسئلہ تو نظر سے نہیں گزراا لبتہ "لاتحلہ الحیات ” فقہی قاعدے کےتحت جائز ہے ۔ کیا ان کا یہ بتلایا ہوا مسئلہ صحیح ہے یا نہیں ؟کیونکہ کچھ لوگ انڈے کا چھلکا کھانے کے اندر استعمال کرتے ہیں ۔برائے مہربانی اس مسئلہ میں ہماری راہمنائی فرمادیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہماری رائے میں بھی مذکورہ مسئلہ درست ہے ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ زندہ حلال جانور کے جسم سے جو چیزیں جدا ہوتی ہیں وہ دو قسم کی ہیں :
(1)۔ جن میں حیات ہو (2) ۔ جن میں حیات نہ ہو۔
پہلی قسم کی چیزیں” ماأبین من الحی فهومیت” میں داخل ہوکر حرام ہیں جبکہ دوسری قسم کی چیزوں میں چونکہ حیات نہیں ہوتی اس لیے وہ "ماأبین من الحی فهو میت ” میں داخل نہیں لہذا یہ چیزیں اگر نجس نہ ہوں تو حلال ہیں،انڈے کے چھلکے پر جو رطوبت (تری ) لگی ہوتی ہے اس کے نجس ہونے میں اختلاف ہے لہذا احتیاط اس میں ہے کہ انڈے کے چھلکے کو کھانے میں استعمال سے پہلے دھولیا جائے اور یہ احتیاط بھی تب ہے جب چھلکے پر بیٹ یا خون لگاہوا نہ ہو ورنہ دھونا واجب ہوگا۔
فتاوی شامی (1/401) میں ہے:
قوله ( ففي البدائع نجسة ) فإنه قال ما أبين من الحي إن كان جزءا فيه دم كاليد والأذن والأنف ونحوها فهو نجس بالإجماع وإلا كالشعر والظفر فطاهر عندنا ا هـ
فتاوی شامی (1/621) میں ہے:
"قوله ( رطوبة الفرج طاهرة ) ولذا نقل في التاترخانية أن رطوبة الولد عند الولادة طاهرة وكذا السخلة إذا خرجت من أمها وكذا البيضة فلا يتنجس بها الثوب ولا الماء إذا وقعت فيه لكن يكره التوضؤ به للاختلاف ۔
قلت وهذا إذا لم يكن معه دم ولم يخالط رطوبة الفرج مذي أو مني من الرجل أو المرأة "
بہشتی زیور(ص:607) میں ہے:
ہر جانور کا انڈا اس کے گوشت کے حکم میں ہےمگر اس بات میں کہ حلال جانور اگر مردار ہوجائے تو اس کا انڈاجو پیٹ میں سے نکلے وہ پاک اور حلال ہے ۔۔۔۔اور اس کے اوپر جو رطوبت ہواسے دھوڈالیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved