• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

انگریزی کے لفظ Divorce کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

جناب عالی میں یہ مسئلہ بیان کرنے سے پہلے یہ گذارش کرتی ہوں کہ مجھے اس کا سب سے آسان فتویٰ دیں، کیونکہ میں اپنے شوہر سے قطعاً الگ نہیں ہونا چاہتی۔

ایک سال قبل کی بات ہے کہ میرے میاں شراب کی حالت میں تھے، ان کے سر میں بہت درد تھی، وہ خود بلڈ پریشر کے مریض ہیں، میں یہ مسئلہ بیان کرنے سے پہلے یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں خود ذہنی مریضہ ہوں، اور ان دنوں میں بیماری اپنے عروج پر تھی، میری اور میرے میاں کی لڑائی ہوئی تو میں نے اس پر بولنا شروع کر دیا، لڑائی کچھ زیادہ بڑی نہیں تھی، لیکن میں نے اس سے  ضد شروع کی کہ مجھے ابھی اور اسی وقت فارغ  کر دو، وہ خاموش سے لیٹا ہوا تھا، جب میں آپے سے باہر ہو گئی اور بہت ضد کی تو اس نے مجھے انگریزی میں تین دفعہ Divorce, Divorce Divorce, کہہ دیا۔ (میں یہ بات بتانا چاہتی ہوں کہ میرے میاں کو یہ پتہ تھا کہ طلاق صرف طلاق کا لفظ بولنے سے ہوتی ہے، انگریزی یا اور کسی زبان میں نہیں ہوتی)۔ اگلے دن جب میں نے اس کو کہا کہ تم نے مجھے طلاق دے دی۔ تو اس نے کہا تم پاگل تو نہیں ہو، میں نے صرف تمہیں ٹالنے کے لیے کہا تھا، میں تو تمہیں مر کے بھی طلاق نہیں دے سکتا، میں تم سے اتنا پیار کرتا ہوں، میری نیت تمہیں طلاق دینے کی نہیں تھی، اللہ میری نیت جانتا ہے، اس کے بعد سے وہ اپنی زندگی میں بالکل نارمل ہو گیا، لیکن ہر گذرتے دن کے ساتھ میں گھلتی جا رہی ہوں، اس واقعہ کے بعد سے میرے ذہنی مسائل اور بڑھنا شروع ہو گئے، اور میں نے Physcologists  کے پاس جانا شروع کر دیا، لیکن کسی چیز نے میرے اس ذہنی دباؤ کو کم نہ کیا۔

میری آپ سے گذارش ہے کہ مجھے اس مسئلے کا جلد از جلد جواب دیں، کیونکہ میرے شوہر پچھلے آٹھ ماہ سے نوکری کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں، اور میں ان کے آنے سے پہلے اس کا جواب چاہتی ہوں۔

مفتی صاحب میری شادی کو بارہ سال گذر چکے ہیں، اور میرے تین بچے ہیں، میں آپ سے بارہا گذارش کرتی ہوں کہ مجھے آسان تر جواب دیجیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

” Divorce” کا لفظ انگریزی میں صریح طلاق کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لہذا انگریزی میں ” Divorce” کا لفظ بولنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ خواہ طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو۔ بالخصوص جب یہ لفظ عورت کے اس مطالبے پر کہا ہو کہ "مجھے ابھی اور اسی وقت فارغ  کر دو”۔ لہذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں  ہو گئیں ہیں، اور نکاح ختم ہو گیا ہے۔ اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی صلح ہو سکتی ہے۔

مذکورہ صورت میں شوہر نے اگرچہ یہ الفاظ شراب کی حالت میں کہے ہیں، لیکن ان الفاظ کے کہنے کے وقت شوہر کی نشہ کی ایسی حالت نہ تھی کہ اسے پتہ ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، اور کیا نہیں؟ چنانچہ اگلے دن بیوی نے جب اپنے شوہر سے یہ کہا کہ "تم نے مجھے طلاق دے دی ہے” تو شوہر نے طلاق دینے کا انکار نہیں کیا، بلکہ صرف یہ کہا کہ "میں نے صرف تمہیں ٹالنے کے لیے کہا تھا” یا یہ کہ "میری نیت تمہیں طلاق دینے کی نہیں تھی”۔ ظاہر ہے یہ باتیں آدمی اس وقت کہہ سکتا ہے کہ جب اسے اپنی کہی ہوئی بات کا علم ہو۔

اسی طرح عورت کا یہ کہنا کہ "میرے میاں کو یہ پتا تھا کہ طلاق صرف طلاق کا لفظ بولنے سے ہوتی ہے۔ انگریزی یا اور کسی زبان میں نہیں ہوتی” قابل اعتبار نہیں۔ کیونکہ مذکورہ صورت میں شوہر کو کم از کم یہ تو پتہ تھا کہ ” Divorce” کا معنیٰ طلاق ہی ہے۔ اور پھر اس نے بیوی کو اس مطالبے پر کہ "مجھے ابھی اور اسی وقت فارغ کر دو” یہی الفاظ کہے، کوئی دوسرا لفظ نہیں کہا۔ نیز اگر اس کو یہ معلوم تھا کہ اس لفظ سے طلاق نہیں ہوتی، تو پھر ڈرانے کا کیا معنیٰ؟ زیادہ سے زیادہ یہ بات ہے کہ شوہر کا طلاق دینے کا ارادہ نہیں تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ الفاظ جب صریح ہوں تو نیت اور ارادہ کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved