• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

انوائس

استفتاء

ہمیں کاروباری حیثیت سے سیلز ٹیکس انوائس کے متعلق چند ایک مسائل در پیش ہیں جن کا آپ سے حل چاہتے ہیں۔

1۔میں سیلز ٹیکس رجسٹرڈ ہوں اور ہر مہینے سیلز ٹیکس ریٹرن جمع کرواتاہوں۔ گورنمنٹ کے ٹیکس کے حساب کے مطابق اور  وکیلوں کے مشورے سے ہمیں سالانہ ٹیکس ریٹرن  جو  نفع دکھانا ہوتا ہے ۔ وہ یہ کاروباری سیلز پر تقریباً تین فیصد یا ساڑھے تین فیصد بنتاہے۔ جس میں سے اخراجات نکال کر وکیل اتنا نفع دکھاتے ہیں تاکہ ٹیکس مناسب لگ جائے ۔ حالانکہ اصل ریٹ اور نفع یا نقصان تو کچھ اور ہوتاہے ۔ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ایک چیز مثال کے طورپر ہم نے چالیس روپے فی کلو کے حساب سے خریدی اب جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے اس میں  تین فیصد یا ساڑھے تین فیصد ڈال کر  وہ تقریباً ہم نے  ساڑھے اکتالیس فی کلو کے حساب سے بیچنی ہوتی ہے ۔ یعنی اس کی انوائس ہم نے اس ریٹ پر کاٹنی ہوتی ہے ۔ اب اس چیز کا اصل ریٹ  چالیس ہی ہے ۔ لیکن بعض مل والے اس کی انوائس آدھی یعنی  بیس کے حساب سے دیتے ہیں بعض پوری دیتے ہیں بعض پونی یا تیس کے ساب سے دیتے ہیں ۔ لیکن  ہمارا خریدار اس چیز کی پوری انوائس مانگتاہے یعنی  ساڑھے اکتالیس کے حساب سے ۔ اب ہم   بیس والی یا تیس والی انوائس کو ساڑھے اکتالیس والی انوائس کے ساتھ نہیں لگاسکتے کیونکہ اس صورت میں نفع بہت زیادہ ہوجائے گا اور بھاری ٹیکس لگےگا۔ لہذاہم ان لوگوں سے جو انوائسوں کے لینے بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں ان سے چالیس فی کلو والی انوائس کا صرف کاغذ خرید تے ہیں۔ اور جو مال ہم نے خریدا ہوتاہے ۔ اس کےساتھ اس انوائس کو استعمال کرتےہیں۔اب وہ لوگ اس کو کس طرح اور کیا کرتے ہیں ۔ اس بات کا ہمیں نہیں معلوم۔ مزید  وضاحت کے لیے کہ ہم نے مال کسی اور مل   سے خریدا اور آگے  ساڑھے اکتالیس کے حساب سے بیچا۔ اور انوائس اس مل کی جو کم ریٹ کی تھی وہ چونکہ ہمارے لیے بیکا ر ہے وہ ہم نے ضائع کردی اور چالیس والی انوائس کا کاغذ کسی اور کمپنی کا خریدکر وہ ہم نے اس مال کےساتھ لگادی۔ یہ انوائس ہمیں تقریباً ایک فیصد کے حساب سے خریدنی پڑتی ہے۔

2۔دوسری صورت میں بعض اوقات ہم نے یا کسی دوسرے ٹریڈرنے کوئی مال مثال کے طورپر کسی مل سے بیس فی کلو کے حساب سے اکٹھا  تین ماہ کا ایڈوانس خریدلیا ہے۔ اور اس دوران اس مال کا ریٹ پچیس فی کلو مارکیٹ میں ہوگیا ہے۔ اب وہ مل والے کے ساتھ تو چونکہ  ایک ہی دفعہ ریٹ بیس روپے فی کلو ہوچکا ہے۔ لہذا وہ انوائس ہی بیس کے حساب سے دے گا۔ اب اگر وہی مال اگرہم نے آگے پچیس کے حساب سے بیچا ہے چونکہ ریٹ بڑھ گئے ہیں ۔ لہذا اس صورت میں بھی چونکہ ریٹ کا فرق پانچ روپے فی کلو ہو چکا ہے۔جوکہ بہت زیادہ ہے ۔ اگر ہم پچیس کے حساب سے سے آگے انوائس کاٹیں گے اور پیچھے سے بیس کے حساب سے لیں گے تو اس پر بھی ٹیکس بہت پڑے گا۔ لہذا اس صورت میں  بھی کہ جب مارکیٹ میں  ریٹ کا فرق بہت زیادہ  ہوجائے تو ہم یہی کام کرتے ہیں جو کہ پہلی صورت میں کیا ۔ یعنی انوائس  ایک فیصد کے حساب سے خریدنے کا۔ یعنی اگر  پچیس کے حساب سے کاٹنی ہے تو چوبیس کے حساب سے انوائس کا کاغذخریدلیں گے۔

3۔بعض اوقات کوئی ٹریڈرکسی مال کو مل سے خریدکر ہمیں بیچ دیتاہے اور بیچنے کے وقت وہ طے کرتاہے کہ میں پوری انوائس دوں گا لیکن بعد میں مکر جاتاہے۔ اورانوائس دیتا ہی نہیں یا پھر کم ریٹ پر دیتاہے۔ اس صورت میں بھی ہمیں پہلی والی صورت کو اپنانا پڑتا ہے۔

4۔چونکہ اوپر بتائی گئی صورتحال میں انوائس کا کاغذ ہمیں ایک فیصد کے حساب سے خریدنا پڑتا ہے ۔ لہذا وہ لوگ جو انوائس کے بغیر کاروبار کرتے ہیں اور خود سیلز ٹیکس یا انکم ٹیکس رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔ لہذا ہماری کوشش ہوتی ہے ۔ ان جیسے لوگوں کو جب یہ مل سے مال اٹھاتے ہیں۔ اگر اچھے ریٹ کی فالتو انوائس مل جائے۔ چونکہ وہ ان کے لیے فالتو ہوتی ہے ۔ وہ ہم اپنے نام کی کٹوالیں ۔ تاکہ اس کاغذ کوہم ہی کسی کو بیچ کر اپنا وہ نقصان جو ہمیں  ایک فیصد ادا کرکے دینا پڑتا ہے ۔ وہ پورا کرلیں۔

5۔اسی طرح ہماری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ اسی طرح جس طرح نمبر3 صورت میں بتایا گیا ہے ۔ کہ فالتو انوائس اچھے ریٹ کی اگر ہمیں مل جائیں تو ان کو بیچ کر ہم ان پیسوں سے وکیلوں کی فیس انکم ٹیکس او ر محکمہ کے لوگوں کی رشوتیں اس میں  سے پوری کرلیں ، جیسا کہ ابھی ھی میری فرم کا آڈٹ  کھلا ہواہے۔ اور محکمہ کے لوگوں کے احوال  آپ کو معلوم ہیں۔ساراکام صحیح کریں یا غلط رشوت دینی ہی پڑتی ہے ۔

چونکہ مسئلہ سنا تھا کہ انوائسوں کی خریدوفروخت کا کاروبار جائز نہیں لیکن ہم چونکہ اسے پیشے کے طورپر نہیں کرتے صرف اوپر دی گئی صورتحال میں ہمیں یہ کرنا پڑتا ہے ۔چونکہ گورنمنٹ کے قانون اس طرح کے ہیں  وہ بازار میں لین دین کی صورتحال سے مختلف ہیں اوراس پرکوئی کاروباری آدمی پورا نہیں اترسکتا۔ اگر ہم یہ چھوڑدیتے ہیں ۔ نہ تو  ہر جگہ سے ہرمل سے  ہمیں پوری انوائس ملتی ہے۔ اور نہ  ہی پھر ہم ان لوگوں کے ساتھ کاروبار کرسکتے ہیں جوکہ پوری انوائس مانگتے ہیں۔ لہذا ا س بتائی گئی وضاحت کی روشنی میں آپ کی راہنمائی کا طالب ہوں برائے مہربانی اگراس میں  کسی صورت میں کوئی گنجائش ہوتو راہنمائی فرمائیں۔

الجواب

انوائس کوئی مال نہیں جو خریدوفروخت کیا جاسکے۔ لہذا آپ پہلے ہی ایسے لوگوں سے سوداخریدیں جوآپ کو انوائس بناکردیں۔ اکر کبھی مجبوری ہوتو انوائس لینے پر عوض دے سکتےہیں۔ لیکن خود اس کو کمائی کا ذریعہ نہ بنائیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved