• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جانوروں کی زکوٰۃ میں درمیانی مقدار میں زکوٰۃ واجب نہ ہونے کی اور نقد رقم کی درمیانی مقدار میں زکوٰۃ واجب ہونے کی وجہ

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حیوانات کی زکوٰۃ میں مقررہ مقدار کے درمیان کی جو تعداد ہے وہ معاف ہے تو نقد رقم کے درمیانی مقدار میں معاف نہیں ہے اس کی شرعا ً وجہ کیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس کی اصل وجہ تو  یہ ہے کہ خود حدیثوں میں یہ فرق  رکھا گیا ہے  باقی رہی یہ بات کہ حدیثوں میں یہ فرق کیوں رکھا گیا ہے؟  تو اس  کا اصل جواب تو یہ ہے کہ زکوٰۃ کا نصاب اور اس میں واجب ہونے والی زکوٰۃ کی مقدار  غیر مدرک بالقیاس امور میں  (جن باتوں کو عقل سے نہیں جانا جا سکتا  ان میں ) سےہے لہذا اس کی وجہ جاننا عقل کے دائرہ کار  سے باہر کی چیز ہے، باقی بعض اہل علم نے یہ وجہ بھی بیان فرمائی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں اصل طریقہ یہ ہے کہ جس مال میں زکوٰۃ واجب ہوئی ہے اسی کا ایک مخصوص حصہ دیا جائے لہذا حیوانات کی درمیانی مقدار میں اگر زکوٰۃ واجب کی جائے تو ایک جانور کا کچھ حصہ زکوٰۃ میں دینا پڑے گا جس کے نتیجے میں ایک جانور میں زکوٰۃ دینے والے اور لینے والےکی  شرکت (پارٹنرشپ)قائم  ہو جائے گی جو کہ ایک معیوب چیز ہے جبکہ یہ عیب نقد رقم کی درمیانی مقدار میں لازم نہیں آتا۔

سنن ابوداؤد (رقم الحدیث:1572) میں ہے:

عن علي رضي الله عنه،   قال زهير : أحسبه عن النبي صلى الله عليه وسلم   أنه قال: «هاتوا ربع العشور، من كل أربعين درهما درهم، وليس عليكم شيء حتى تتم مائتي درهم، فإذا كانت مائتي درهم، ففيها خمسة دراهم، ‌فما ‌زاد ‌فعلى حساب ذلك.

ترجمہ:حضرت  علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے زہیر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:  چالیسواں حصہ نکالو، ہر چالیس  (40) درہم میں سے  ایک  درہم، اور جب تک دو سو  (200)درہم پورے نہ ہوں تم پر کچھ لازم نہیں آتا، جب دو سو (200) درہم پورے ہوں تو ان میں پانچ  (5)درہم  زکوٰۃ کے نکالو، پھر جتنے زیادہ ہوں اسی حساب سے ان کی زکوٰۃ نکالو۔

سنن ابن ماجہ (رقم الحدیث:1799) میں ہے:

حدثنا محمد بن عقيل بن خويلد النيسابوري قال: حدثنا حفص بن عبد الله السلمي قال: حدثنا إبراهيم بن طهمان، عن عمرو بن يحيى بن عمارة، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس فيما دون خمس من الإبل صدقة، ولا في الأربع شيء، فإذا بلغت خمسا ففيها شاة إلى أن تبلغ تسعا، فإذا بلغت عشرا ففيها شاتان إلى أن تبلغ أربع عشرة، فإذا بلغت خمس عشرة ففيها ثلاث شياه إلى أن تبلغ تسع عشرة، فإذا بلغت عشرين ففيها أربع شياه إلى أن تبلغ أربعا وعشرين، فإذا بلغت خمسا وعشرين ففيها بنت مخاض إلى خمس وثلاثينالخ

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:   پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور چار میں کچھ نہیں ہے، جب پانچ اونٹ ہو جائیں تو نو تک ایک بکری ہے، جب دس ہو جائیں تو چودہ تک دو بکریاں ہیں، اور جب پندرہ ہو جائیں تو انیس(19) تک تین بکریاں ہیں، اور جب بیس ہو جائیں تو چوبیس (24) تک چار بکریاں ہیں، اور جب پچیس (25)ہو جائیں تو پینتیس (35) تک بنت مخاض (ایک سال کی اونٹنی) ہےالخ

بدائع الصنائع (104/2) میں ہے:

احتجوا بما روي عن علي  رضي الله عنه   عن النبي   صلى الله عليه وسلم   أنه قال: «وما زاد على المائتين فبحساب ذلك» وهذا نص في الباب، ولأن شرط النصاب ثبت معدولا به عن القياس؛ لأن الزكاة ‌عرف ‌وجوبها شكرا لنعمة المال.

ومعنى النعمة يوجد في القليل والكثير، وإنما عرفنا اشتراطه بالنص، وأنه ورد في أصل النصاب فبقي الأمر في الزيادة على أصل القياس إلا أن الزيادة في السوائم لا تعتبر ما لم تبلغ نصابا دفعا لضرر الشركة إذ الشركة في الأعيان عيب، وهذا المعنى لم يوجد ههنا.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved