• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اے پی ڈی پراپرٹی کمپنی کے کاروبار کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل کاروبار کے طریقہ کار کے بارے میں

صورت مسئلہ یہ ہے کہ چنداحباب نے مل کر ایک کمپنی بنائی ہے جس کا نام ’’اے پی ڈی مارکیٹنگ رئیل اسٹیٹ ‘‘رکھا ہے ۔پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں مثلا کسی شہر کے قریب زمین خرید کر اس پر ٹاؤن ایک نقشے کے تحت بناتے ہیں وغیرہ،اب کمپنی نے خرید و فروخت کا طریقہ اس طرح تیار کیا ہے کہ ٹاؤن کی زمین کے حصے یعنی شیئرز مقرر کیے ہیں ،ایک شیئر کی قیمت مثلاً 51500 روپے ہے۔

اب کسٹمر جتنے شیئرخریدنا چاہے اتنا شیئرز کی قیمت نقد جمع کراکر اتنی ہی زمین کا بلا مشروط مالک بن جاتا ہے اور ٹاؤن کی زمین سے اپنے یا اپنے وکیل کے نام انتقال کروا سکتا ہے۔اب اگر مذکورہ شخص اپنے شیئرز کو بااختیار فروخت کرنا چاہے تو کمپنی بھی خریدار ہے اور کمپنی کے خریدنے کا ایک ہی ریٹ مقرر ہے وہ یہ کہ ایک شیئر پر مثلاً 36000روپیہ منافع دے گی اورایک سال کی مدت کے لئے ادھار پر خریدے گی۔اب اگر بائع(شخص) اور مشتری(کمپنی) کے مابین شیئر87500 مشتری(کمپنی) کے ذمے واجب الادا ہو گا ۔معین مدت ایک سال۔

اب کمپنی اس رقم کی ادائیگی یا واپسی دو طریقوں پر کرتی ہے ،اول کل رقم حسب معاہدہ یکمشت ادا کر دیتی ہے دوئم کل رقم کا کچھ حصہ باتفاق بائر (شخص) کو اقساط پر دوران سال ادا کرتی ہے۔

کیا کمپنی کا اس طرح ٹاؤن کی زمین کے شیئر مقرر کرنا پھر شیئرز کی قیمت مقرر کرنا پھر شئیرز فروخت کرنا پھر شیئرز خریدنے والے کو نفع دے کر ادھار پر خریدنا چاہے تو کمپنی خریدے یا کوئی اور خریدے کیا  شرعا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کمپنی سے شیئر خریدنے والا اگر خود کمپنی کو واپس نہ بیچے تو مذکورہ طریقے سے خرید وفروخت جائز ہے ورنہ نہیں،کیونکہ زمین  پر قبضہ کرنے سے پہلے اگرچہ آگے فروخت کرنا جائز ہے لیکن خود بائع (بیچنے والے ) کو فروخت کرنا جائز نہیں۔

المجلة (ص: 52) میں ہے:

مادة 253 للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقارا

درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 201) میں ہے:

وقول المجلة ( لآخر ) معناه لغير البائع لأنه لا يجوز للمشتري أن يبيع العقار من بائعه قبل القبض وإذا فعل فالبيع فاسد كما في بيع المنقول

شرح المجلة للاتاسی (173/2) میں ہے:

والتقیید بکون البیع لآخر احتراز عن بیعه لبائعه قبل قبضه فانه فاسد کما فی المنقول ویراجع طحطاوی قلت ویوئیده ما فی الخانیه باع المبیع من البائع قبل القبض لا یجوز البیع الثانی ولا ینفسخ الاول فقوله باع المبیع یعم العقار والمنقول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved