• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اپنا مال فروخت کرنے کے لیے کمپنی کے ملازمین کو رشوت دینا

استفتاء

ہم لوگ شوگر ملز اور سیمنٹ فیکٹری وغیرہ میں استعمال ہونے والے پُرزے بیچتے ہیں، ان فیکٹریوں کے تین عدد اداروں  سے ہمارا واسطہ رہتا ہے۔

۱)Purchase Department(شعبہ خریداری) ۲)Site/Factory(فیکٹری کےتکنیکی حصے کے ملازمین ) ۳)Account Department(شعبہ حسابات)۔

مفتی صاحب سرکاری محکموں میں تو رشوت زنی عام تھی جس کی وجہ سے ہم نے سرکاری محکموں سے کام کرنا بند کردیا تھا، اب بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے پرائیویٹ اداروں میں بھی رشوت زنی نے زور پکڑ رکھا ہے اور حالیہ دور میں  یہ ناسور کی  طرح پھیل رہا ہے اور تقریبا پرسنٹیج فکس  ہوتی جارہی ہے جو اوسطاً مال کی قیمت فروخت  کی 10 فیصد پرچیز آفیسر،5 فیصد فیکٹری عہدہ داران  اور  2 فیصد اکاؤنٹ ڈیپارٹمنٹ  کو دینے پڑرہے ہیں اگر انہیں نہیں دیتے تو کام ملنا بند ہوجاتا ہے اب صرف تقریباً 2%یا5% لوگ ہوں گے جو رشوت کے بغیر نوکری کررہے ہیں (جوکہ آج کے دور میں ولی کا درجہ رکھتے ہیں) اندازاً90%پاکستانی رشوت خور نہیں جبکہ Salary According To Skill(مہارت کے مطابق تنخواہ )نہ  ہونے کی  وجہ سے حالات سے مجبور ہوکر اس راستے پر چل پڑے ہیں۔

مفتی صاحب آپ سے مشورہ  مطلوب ہے کہ ایسی صورتحال میں ہم کیا کریں؟رشوت دیدیا کریں اگر نہیں دیتے تو ہمارا کام بند ہوجائے گا۔ کیا پرچیز آفیسر کو رشوت دینے کی بجائے اس پرچیز آفیسر سے سرمایہ کاری کرواکر اس کے متعلقہ محکمے/ فیکٹری میں فروخت کیے جانے والے مال میں حصہ دار بناسکتے ہیں؟ ہم کو اس معاملے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔

نوٹ: چونکہ یہ بات عام ہوچکی ہے اس لیے کمپنی/ فیکٹری  مالکان کو علم ہوتا ہے کہ ہمارا ڈیپارٹمنٹ کیا کررہا ہے مگر وہ اسے منع نہیں کرتے بلکہ نظر انداز کرتے ہیں اگر منع کریں یا بغیر رشوت کے کسی  خاص وینڈر سے مال پرچیز کرنے کا کہیں تو متعلقہ مینیجر مال میں خرابی پیدا کرکے یا کسی اور طریقے سے فیکٹری کو نقصان پہنچا سکتا ہے اس لیے وہ یہ دردِ سر نہیں  لیتے اور کہتے ہیں آپ جانیں اور متعلقہ ڈیپارٹمنٹ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اس کمیشن کی حیثیت تو رشوت کی ہی بنتی ہے لیکن اگر اس کے دیے بغیر گذارے کے قابل کام بھی نہ چلتا ہو تو آپ کے لیے دینے کی گنجائش ہے لیکن ان کے لیے لینا بہر حال ناجائز ہے۔ آپ کے لیے بھی صرف اس وقت تک اجازت ہے کہ کمیشن دیے بغیر  گذارے کے قابل کام بھی نہ چلتا ہو ورنہ اجازت نہیں نیز جس صورت میں اجازت ہے اس میں توبہ استغفار بھی کرتے رہیں یہ نہ سمجھیں کہ اجازت مل گئی ہے تو جو چاہے کرتے رہو۔

اعلاء السنن (15/64)میں ہے:

والحاصل ان حد الرشوة هو ما يؤخذ عما وجب على الشخص سواء كان واجبا علی العين اوعلى الكفاىة وسواء كان واجبا حقا للشرع كما في القاضي وامثاله ۔۔۔ او كان واجبا عقدا كمن آجر نفسه لاقامة امر من الامور المتعلقة بالمسلمين فيما لهم او عليهم كاعوان القاضي واهل الديوان وامثالهم كذا في الكشاف  للتهانوي (7/596)

ردالمحتار (8/42) میں ہے:

مطلب فى الكلام على الرشوة والهدية

الثالث: أخذ المال ليسوى أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved