- فتوی نمبر: 16-11
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
غلہ منڈی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مختلف اجناس کی خرید و فروخت ہوتی ہے، زمیندار اپنا غلہ آڑھتی کے پاس لاتے ہیں اور آڑھتی اسے فروخت کر کے اپنی کمیشن لیتا ہے۔
بعض اوقات آڑھتی اپنا مال جب کسی کو فروخت کرتا ہے تو وہ اس مال کو کسی دوسرے شخص کا بتا کر مثلاً زید، عمر، بکر کا کہہ کر فروخت کرتا ہے، اسے اپنا مال ظاہر نہیں کرتا۔ یہ اس لیے کرتا ہے تاکہ خریدار سے کمیشن لیا جائے۔ اس کا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس معاملے میں کمیشن ظاہر ہو اور نفع ظاہر نہ ہو کیوں کہ کمیشن تھوڑی ہوتی ہے اور اس پر ٹیکس بھی تھوڑا آئے گا جب کہ نفع کی صورت میں سیل ٹیکس لگتا ہے جس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اور اس سے نفع زیادہ ہوا تو سیل ٹیکس بھی زیادہ ہو جائے گا۔
مذکورہ طریقے سے فروخت کرنے کا کیا حکم ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آڑھتی کا اپنا مال کسی دوسرے کا بتا کر فروخت کرنا جائز نہیںکیونکہ یہ جھوٹ اور غلط بیانی ہے۔ نیز اپنا مال فروخت کرنے کی صورت میں خریدار سے کمیشن وصول کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں آڑھتی خریدار کا کوئی کام نہیں کر رہا بلکہ اپنا مال فروخت کر رہا ہے جبکہ کمیشن دوسرے کا کام کرنے پر لیا جاتا ہے نہ کہ اپنا کام کرنے پر۔ البتہ آڑھتی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شروع سے ہی اپنے مال کی قیمت زیادہ مقرر کرے۔
(۱) لما في کنز العمال (۴/۳۰) طبع: مؤسسة الرسالة
(رقم الحديث:۹۳۴۱) عن معاذ رضي الله عنه:ان اطيب الکسب کسب التجار الذين اذا حدثوا لم يکذبوا، و اذا ائتمنوا لم يخونوا، و اذا وعدوا لم يخلفوا، و اذا اشتروا لم يذموا، واذا باعوا لم يطروا، و اذا کان عليهم لم يمطلوا، و اذا کان لهم لم يعسروا۔
(۲) و في الشامية: (۷/۹۳) طبع: دارالمعرفة، بيروت
واما الدلال فان باع العين بنفسه باذن ربها فاجرته علي البائع۔
(قوله: فاجرته علي البائع) و ليس له اخذ شيء من المشتري، لانه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية۔
(۳) و في بحوث في قضايا فقهيه معاصرة: (۱/۸) مکتبة دار العلوم، کراتشي
و للتجار ملاحظ مختلفة في تعيين الأثمان و تقديرها، فربما تختلف أثمان البضاعة الواحدة باختلاف الأحوال، ولا يمنع الشرع من أن يبيع المرء سلعته بثمن في حالة، و بثمن آخر في حالة اخري۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved