- فتوی نمبر: 9-330
- تاریخ: 26 مارچ 2017
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
صورت مسئلہ یوں ہے کہ شوہر نے بیوی کو گھر سے نکالا ہوا ہے وہ اپنے میکے میں ہے اب شوہر یہ چاہتا ہے کہ بیوی خود اس کے گھر دوبارہ واپس آجائے اسے کسی پوچھ گچھ کا سامنا نہ کرنا پڑے، اسی بارے میں میسج پر بات کرتے ہوئے وہ اسے پوچھ رہا تھا کہ آنا ہے کہ نہیں اور وہ چپ تھی (اس سے پہلے وہ اسے یہ کہتی رہی تھی کہ آپ والدین اور بھائی اور ماموں لوگوں سے بات چیت کر کے انہیں تسلی دے کر صلح کے بعد مجھے لے جائیں لیکن وہ نہیں مان رہا تھا) میسجز کی تفصیل بعینہ ذیل میں درج ہے:
شوہر: بی بی! میں wait کر رہا ہوں مجھے کچھ جواب۔
بی بی: میں wait کر رہا ہوں مجھے کچھ جواب دو۔ (1)
میں پھر نا سمجھوں۔ (2)
مجھے بس ایک دفعہ جواب دے دو ہاں یا نا، تاکہ میں بھی تمہیں جواب دے سکوں کیوں کہ مجھے سب نے کنفرم کہہ دیا ہے کہ میں تجھے طلاق دے دوں لیکن میں ابھی تک جب ہوں کہ نہیں تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو لیکن اگر تم آج بھی دھوکہ دیتی ہو دوبارہ تو پھر جواب بھی سن لو Reply کر کے۔ (3)
میں کل کا تمہارے جواب کا wait کر رہا ہوں۔ (4)
بیوی: نہیں۔
شوہر: کیا نہیں۔ (5)
بیوی:Do not call and msg now. (اب کال اور میسج نہ کرنا)
شوہر: سمجھانا مجھے ذرا کیا مطلب ہے۔ (6)
نہیں آنا واپس no or yes (ہاں یا نہیں)
no or yes say (بولو ہاں یا نہیں)
بیوی: not this way. (اس طرح نہیں)
شوہر: پھر کس way سے؟ بتاؤ مجھے کہیں دیر نہ ہو جائے؟ (9)
جلدی؟ (10)
بیوی: the right way! (درست طریقے سے) اور دھمکیاں نہ دو ۔۔۔ یہ رشتہ ہے مذاق نہیں اور میں انسان ہوں کھلونا نہیں۔
شوہر: جلدی کا کہا ہے۔ (10)
میں نے تیری منتیں کی ہیں اگر اس کے باوجود نہیں آنا تو پھر (11)
(5 منٹ بعد یہ میسج آتا ہے کہ)
Ok پھر آئندہ رابطہ نہ کرنا میرے ساتھ تم۔ اور اپنے آپ کو free سمجھ۔ (12)
بیوی: آخر بربادی ہی چن لی تم نے ۔۔۔ لیکن کتنا برا کیا جان جاؤ گے۔۔۔۔
شوہر: میں نے ہر ممکن کوشش کی تمہیں منانے کی، جھولی تک کی، واسطے ڈالے سب کچھ کیا تم پھر نہیں مانی پتا نہیں کون کنجر ہے جو تمہیں آنے نہیں دیتا۔ اب کس بات کا شکوہ؟ (13)
میں تجھے واپس لا کر بھی کیا کروں گا جب تیری ڈور تو کسی اور کے پاس ہو گی مجھے نہیں چاہیے ایسی چیز۔ (14)
بیوی: یہ شکوہ نہیں ہے۔ کنجر وہ ہیں جنہوں نے تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔۔۔ کھلے گی انشاء اللہ!
شوہر: تمہیں ہزار بار پوچھا کیا چاہتی ہو کوئی جواب نہیں آیا۔ اب کیا ہے پھر؟ (15)
اب کھلے یا نہ کھلے تجھے اس سے کیا؟ تو ہے کون؟ (16)
بیوی: ok … do not txt now… (ٹھیک ہے۔ اب میسج نہ کرنا)
شوہر: get lost (بھاڑ میں جاؤ) (آگے گالیاں بکی گئی ہیں)
شادی کو یہ دسواں ماہ چل رہا ہے چھ ماہ شوہر کے پاس رہی ہے جس میں لڑائی جھگڑا چلتا رہتا تھا طلاق کی دھمکیاں بھی، ایک بیٹا ہے دونوں کا جو ابھی ایک ماہ کا پورا نہیں ہوا۔ فتاویٰ جاری فرمائیں کہ گذشتہ ساری گفتگو کے پس منظر کے ساتھ
1۔ شوہر کے ان الفاظ کا رشتے پر کیا اثر پڑا ہے؟ ’’اپنے آپ کو free سمجھ‘‘
2۔ یا کوئی اثر نہیں پڑا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں شوہر کی اپنے ان الفاظ سے کہ ’’اپنے آپ کو free (آزاد) سمجھ‘‘ اگر طلاق کی نیت تھی تو ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی ہے جس سے نکاح ختم ہو جاتا ہے ۔ نکاح ختم ہو جانے کی صورت میں اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔
اور اگر ان الفاظ سے شوہر کی طلاق کی نیت نہ تھی تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اور بیوی پہلے کی طرح اپنے شوہر کے نکاح میں ہے۔
نوٹ: میسج میں ان الفاظ کے علاوہ باقی کوئی اور لفظ ایسا نہیں کہ جس سے طلاق واقع ہوتی ہو۔
امداد الاحکام میں ہے:
’’۔۔۔۔ بہر حال لفظ ’’جواب سمجھیں‘‘ طلاق کا صریح لفظ نہیں بلکہ کنایہ ہے، کنایہ بھی ایسا جو مذاکرۂ طلاق میں بھی محتاج نیت ہے بوجہ لفظ سمجھیں بڑھانے کے، جو ترجمہ گیر و انگار کا ہے جس میں فقہاء نے نیت کی ضرورت کی تصریح کی ہے۔ عالمگیری میں ہے:
امرأة قالت لزوجها مرا طلاق ده، فقال الزوج: داده گیر او كرده گیر، إن نوى يقع ويكون رجعياً وإن لم ينو لا يقع، ولو قال داده انگار أو کرده انگار لا يقع وإن نوى. (2/72)
قلت: وهذا يدل على الفرق بين گیر وانگار في عرفهم وليس ذلك في بلادنا بل ترجمة كل واحد منهما عندنا واحدة. وهذا كما ترى قد صرحوا فيه بالوقوع بالنية مع كون التكلم به بعد مذاكرة الطلاق.
۔۔۔۔۔ بہر حال صورت مسئولہ میں جب تک شوہر یہ نہ کہے کہ میں نے یہ الفاظ (جن سے اس وقت جواب میں بحث کی گئی ہے) طلاق کی نیت سے کہے تھے اس وقت تک طلاق نہیں واقع ہوئی۔‘‘ (2/424)۔ ([1])۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
([1] ) (1)نوٹ: سمجھو کے بارے میں پہلے سے جاری شدہ فتاویٰ میں علی الاطلاق عدمِ وقوع کا حکم لگایا گیا ہے۔ جبکہ اس فتوے میں نیت پر موقوف کیا گیا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ امداد الاحکام کی تصریح ہے۔ فلیتامل
(2) مذکورہ بالا جواب حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ کی خدمت میں پیش کیا گیا، حضرت نے اس کی تصدیق فرمائی۔ (شعیب: 4 شعبان 1438ھ)
© Copyright 2024, All Rights Reserved