- فتوی نمبر: 29-7
- تاریخ: 24 مارچ 2023
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
ایک بندہ اپنے بیٹےکی شادی پر یا ولیمے پر کسی کو دعوت دیتا ہے اب یہ بندہ خود نہیں جاتا مگر اپنی جگہ کسی اور کو کہتا ہے کہ میں تو ویسے بھی نہیں جارہا میری جگہ تم چلے جاؤ،تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اس مسئلہ کو تفصیل سے بتائیں اور اس کے حوالے سے کوئی اور بات ہو تو وہ بھی بتا دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر میزبان کی طرف سے اس کی اجازت ہو خواہ عرف کی وجہ سے یا میزبان کی صراحت کی وجہ سے تو جائز ہے ورنہ نہیں۔
فتح الباری (9/700) میں ہے:
وأما قصة أبي طلحة حيث دعا النبي صلى الله عليه و سلم إلى العصيدة كما تقدم في علامات النبوة فقال لمن معه قوموا فأجاب عنه المازري أنه يحتمل أن يكون علم رضا أبي طلحة فلم يستأذنه ولم يعلم رضا أبي شعيب فاستأذنه — أو لأنه لم يكن بينه وبين القصاب من المودة ما بينه وبين أبي طلحة
فتاویٰ ہندیہ (5/344) میں ہے:
إذا كان الرجل على مائدة فناول غيره من طعام المائدة إن علم أن صاحبه لا يرضى به لا يحل له ذلك وإن علم أنه يرضى فلا بأس به وإن اشتبه عليه لا يناول ولا يعطي سائلا كذا في فتاوى قاضي خان —ولا يجوز لمن كان على المائدة أن يعطي إنسانا دخل هناك لطلب إنسان أو لحاجة أخرى كذا في فتاوى قاضي خان والصحيح في هذا أنه ينظر إلى العرف والعادة دون التردد كذا في الينابيع
کفایت المفتی (5/148) میں ہے:
سوال: دعوت ولیمہ میں بے بلائے جانا جائز ہے یا نہیں؟ اگر ایک شخص یا کئی آدمی بے بلائے آجائیں تو صاحب خانہ ان کو روک سکتا ہے یا نہیں؟ اگر میزبان نے روکا تو گناہ ہوگا؟
جواب: بے بلائے کسی دعوت میں جانا جائز نہیں ہے، خواہ ولیمہ کی دعوت ہو یا اور کوئی دعوت بے بلائے ہوئے آنے والے کو گھر والا جس کے ہاں دعوت ہو روک سکتا ہے، روکنے پر کوئی گناہ نہیں۔
قال عبدالله بن عمر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من دعى فلم يجب فقد عصى الله ورسوله ومن دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا [سنن ابى داؤد، كتاب الاطعمة(2/129)]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved