• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اپنی جائیداد میں سے بھانجے کے بیٹے کو ہبہ کرنا اور دوسروں کو محروم کرنا

استفتاء

میرا نام فاطمہ ہے۔ میں گلشن راوی کی رہائشی ہوں ۔محترم میں بہت عرصے سے پریشان ہوں کہ میری  اور میرے شوہر کی اپنی ذاتی پانچ مرلے جائیداد/ مکان  ہے جو کہ آدھامیرے نام اور آدھا میرے شوہر کے نام  ہے ۔ہماری اپنی اولاد نہیں ہے ۔ تقریبا 30 سال سے  میرے بھانجے یعنی سگی بہن کے بیٹے میرے ساتھ رہتے ہیں اسی طرح میرے شوہر  نے اپنے بھتیجوں کو بھی ساتھ رکھا ہوا ہے۔ میرے شوہر کے بڑے بھائی جو تقریبا 12 سال  پہلے وفات پا گئے  تھے۔ اور جب  بڑے بھائی زندہ تھے تب بھی  ہم نے  ان کی شادیاں کیں ان کے بچوں کو بھی ابھی تک  پالا پوسا  لیکن اب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں ہم دونوں میاں بیوی بیمار رہتے ہیں لیکن انہوں نے ہماری خدمت نہیں کی، نہ ہی ان کی بیویوں نے ہماری خدمت کی  میرے ایک بھانجے نے ہمیں اپنا بیٹا دے دیا وہ بچہ تقریبا 10 سال سے ہمارے ساتھ ہے ہماری  خدمت کر رہا ہے اس نے چھوٹی عمر  سے ہی پڑھائی  چھوڑ دی اور ہمیں سنبھالنے اور کام کرنے لگ گیا ابھی دو سال پہلے میں نے اس بچے کی شادی کر دی ہے وہ اور اس کی بیوی دونوں ہمیں سنبھالتے ہیں لیکن اب میرے بھانجے مجھے دھمکیاں دیتے ہیں مجھ سے لڑتے  ہیں  اور اس مکان پر قبضہ کر کے بیٹھے ہیں حالانکہ اس مکان میں نہ ان کا  اور نہ ہی ان کے والد کا کوئی  پیسہ لگا ، میرے شوہر نے اپنی محنت سے  یہ مکان  بنایا ہے اور جو بچہ ہمیں سنبھال رہا ہے اس سے بھی لڑتے ہیں اور اس کی بیوی کو بھی گالیاں دیتے ہیں ان کے گلے  پڑ گئے ہیں۔  ان سب باتوں کے باوجود میں نہیں چاہتی کہ لڑائی جھگڑا  مزید بڑھے پریشان ہو کر میں نے سوچا کہ میں قرآن و حدیث کے مطابق پوچھ لوں کہ ان کا اس جائیداد میں کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: کیا جائیداد / مکان میں ان بھانجوں   کے والد کا کوئی حصہ ہے؟ اور بھانجوں کے لڑنے کی کیا وجہ  ہے؟

جواب وضاحت: ان کے والد کا کوئی حصہ نہیں، زمین بھی ذاتی ہے  اور شوہر نے اپنی محنت سے بنایا ہے، جو لڑکا خدمت کررہا ہے اس کو ڈیڑھ مرلہ دینا چاہتی ہوں تو دیگر بھانجے اعتراض کرتے ہیں کہ ہمیں بھی دو۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جو لڑکا آپ کی خدمت کررہا ہے شرعاً اسے آپ ڈیڑھ مرلہ  دے سکتی ہیں اس میں کسی کو اعتراض کرنے کا شرعاً حق حاصل نہیں ۔

ہندیہ (4/391) میں ہے:

(الباب السادس في الهبة للصغير) . ‌ولو ‌وهب ‌رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى  أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية. ‌رجل ‌وهب ‌في ‌صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع

بدائع الصنائع (6/264) میں ہے:

للمالك أن يتصرف في ملكه أى تصرف شاء

شامی (8/583) میں ہے:

وفي الخانية ‌لا ‌بأس ‌بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى

(قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من ‌أن ‌التنصيف ‌بين ‌الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved