• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اپنی رقم سے ایک وارث کا اپنے مورث کی طرف سے اپنے بھائی کو فدیہ دینا

استفتاء

** کی زندگی کی کئی سالوں کی نمازیں رہتی تھیں۔ مرنے سے قبل **نے وصیت کی کہ میرے نمازوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے۔

مگر ترکہ میں اتنا مال نہیں جس کے تہائی بلکہ مکمل سے بھی فدیہ ادا کیا جا سکے۔ ورثاء میں سے ایک وارث یہ فدیہ اپنی جیب سے ادا

کرنا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ فدیہ وہ وارث اپنے بھائی بہن یعنی میت کی اولاد کو دے سکتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

دے سکتا ہے جبکہ اس کے بھائی بہن زکوٰۃ کے مستحق ہوں کیونکہ وارث اپنے مال میں سے دے رہا ہے میت کے مال میں سے نہیں۔ میت کی طرف سے تبرعاً دے رہا ہے کیونکہ وجوب میت پر تھا اور وجوب دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہوتا۔ ([1]) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

([1] ) پہلے مفتی شعیب صاحب و عبد اللہ صاحب کی جانب سے یہ جواب اول لکھا گیا۔

مذکورہ صورت سے متعلق باوجود تلاش کے صریح جزئیہ نہیں ملا۔ قواعد سے یہ جواب سمجھ میں آتا ہے کہ یہ فدیہ میت کے فروع کو دینا جائز نہیں کیونکہ یہ فدیہ اگرچہ میت کا ترکہ نہ ہونے کی وجہ سے وارث کی جانب سے تبرع ہے مگر جب ادائیگی میت کی جانب سے ہے اور میت اس کی بدولت ذمہ داری سے سبکدوش بھی ہو رہی ہے تو میت کے حق میں یہ اداء واجب ہی ہے اگرچہ ابتداءً واجب نہ تھا مگر انتہاء ً واجب ہوا۔

کفایت المفتی () میں ہے:

’’سوال: میت نے نماز روزہ وغیرہ کے متعلق کوئی وصیت نہ کی ہو اور کوئی وارث اپنی طرف سے  اس کی روزوں کا فدیہ ادا کرے تو کیا حکم ہے اور اس فدیہ کے مستحق کون لوگ ہیں کیا ایسے مال کو مسجد وغیرہ میں لگایا جا سکتا ہے؟

جواب: میت نے فدیہ نماز وغیرہ کے متعلق وصیت نہ کی ہو اور وارث اپنے طور پر اپنے مال میں سے دینا چاہے تو دے سکتا ہے اور اس کے مستحق فقراء و مساکین ہیں، صدقات واجبہ کا جو حکم ہے وہی اس کا ہے۔

حاشیہ: کیونکہ یہ وارث پر اگرچہ واجب نہیں لیکن میت پر تو واجب تھا تو چونکہ وارث میت کی طرف سے اس پر واجب حق ادا کر رہا ہے اس لیے اس کا حکم بھی وہی ہو گا جو دوسرے صدقات واجبہ کا ہے۔‘‘

نوٹ: مذکورہ جواب سے استشہاد صرف اس قدر ہے کہ اگرچہ میت نے وصیت نہ کی تھی اور ورثہ نے اپنی جانب سے ادا کیا مگر پھر بھی اس کا حکم زکوٰۃ کا ہوا۔ تو ہمارے مسئلے میں بھی حکم زکوٰۃ کا ہو گا اگرچہ یہاں وصیت موجود ہے مگر ترکہ میں اتنی گنجائش ہی نہی۔ نیز اس صورت میں احتیاط بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط  و اللہ تعالیٰ اعلم

جس پر حضرت ڈاکٹر صاحب نے وہ جواب لکھا جو فتویٰ کی صورت میں دیا گیا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved