• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

  1. ایک شخص***جو پیر سنی کی عمر کو ہے مگر اب تک حیات ہے ، اس کے پانچ بیٹے*** اور تین بیٹیاں *** ہیں اور اس کی بیوی بھی حیات ہے۔ کیا وہ اپنی زندگی میں اپنی زمین جو ان کی ذاتی ملکیت ہے تقسیم کرسکتا ہے؟
  2. اگر کرسکتا ہے تو شرعی لحاظ سے اس کی کیا صورت ہوگی؟

    الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  3. ذاتی ملکیت کی زمین اپنی زندگی میں تقسیم کرسکتے ہیں البتہ زندگی میں اپنا مال تقسیم کرنا ہبہ (تحفہ) ہوتا ہے وراثت نہیں کیونکہ وراثت کا تعلق انسان کے فوت ہونے کے بعد سے ہوتا ہے۔
  4. اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی وراثت تقسیم کرنا چاہے تو اس میں افضل طریقہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کے بقدر زمین چھوڑ کر باقی زمین بیٹے، بیٹیوں کو برابر دے اور یہ بھی درست ہے کہ بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دے اور بیوی کو آٹھواں حصہ دے اور اگر کسی بیٹے، بیٹی کو اس سے بھی کم وبیش دینا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ یہ فرق ایسا ہو کہ اس میں کسی بیٹے، بیٹی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔

بخاری شریف (حدیث نمبر: 2447) میں ہے:

عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةً فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِكَ مِثْلَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَاتَّقُوا اللهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ قَالَ فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ

ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیرﷺکہتے ہیں (میری والدہ نے میرے والد سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے اپنے مال میں سے ایک غلام ہدیہ کریں ۔ میرے والد نے ان کے مطالبہ کو ایک دو سال ٹالا لیکن پھر مجبور ہو کر) میرے والد نے مجھے (وہ غلام) ہدیہ (کرنے کا فیصلہ ) کر دیا (میری والدہ کو اتنی بات پر تسلی نہ ہوئی اس لئے توثیق کی خاطر میری والدہ) عمرہ بنت رواحہ نے کہا جب تک آپ اس پر رسول اللہﷺ کو گواہ نہ بنا لیں مجھے تسلی نہ ہو گی۔ میرے والد رسول اللہﷺکے پاس آئے اور کہا (میری بیوی عمرہ) بنت رواحہ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کے بیٹے کو اپنا غلام ہدیہ کر دوں تو میں نے عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو (غلام) ہدیہ (کرنا طے) کر دیا ہے لیکن اب اے اللہ کے رسول اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں (اس پر) آپ کو گواہ بنا لوں ۔ آپ ﷺنے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی باقی اولاد کو بھی اسی جیسا ہدیہ (دینے کا فیصلہ ) کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ۔ (اس پر) آپﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان برابری اور انصاف کرو۔ اس پر میرے والد واپس آگئے اور ہدیہ (کا فیصلہ) واپس لے لیا۔

فتاویٰ شامیہ (8/583) میں ہے:

وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى

(قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد. رملي

خلاصۃ الفتاویٰ (4/400) میں ہے:

وفي الفتاوى رجل له ابن وبنت اراد أن يهب لهما شيئا فالأفضل أن يجعل للذكر مثل حظ الأنثيين عند محمد، وعند أبي يوسف بينهما سواء هو المختار لورود الآثار.

ولو وهب جميع ماله لإبنه جاز في القضاء وهو أثم نص عن محمد هكذا في العيون ولو اعطى بعض ولده شيئا دون البعض لزيادة رشده لا بأس به وإن كان سواء لا ينبغي أن يفضل

فتاویٰ عالمگیری (4/391) میں ہے:

(الباب السادس في الهبة للصغير) ‌ولو ‌وهب ‌رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved